خیبر پختونخوا کی وادیٴ سوات میں نامعلوم موٹرسائیکل سوار عسکریت پسندوں نے اسکول کی ایک گاڑی پر حملہ کیا ہے۔ فائرنگ سے نشانہ بننے والوں میں شامل گاڑی کا ڈرائیور ہلاک جب کہ دو کمسن طلبہ زخمی ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پیر کی صبح گلی باغ کے علاقے میں اسکول کے طلبہ کو لے جانے والی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ سے زخمی ہونے والے طلبہ کو خوازہ خیلہ اسپتال منتقل کیا گیا۔
خوازہ خیلہ اسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہونے والےدونوں زخمی طلبہ کی حالت تسلی بخش ہے۔
سوات کے سینئر صحافی عیسی خان خیل نے وائس آف امریکہ کو اس واقعے کے حوالے سے بتایا کہ اسکول کی جس گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے، وہ تحصیل چارباغ کے ایک نجی اسکول ’دی نالج‘ کے طلبہ کو لے جا رہی تھی۔
مقدمہ درج، تفتیش شروع
ان کا مزید کہنا تھا کہ گاڑی میں زیادہ تر گلی باغ کے ایک گاؤں کے بچے سوار تھے جب کہ گاڑی پر گلی باغ کے نواح میں موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے حملہ کیا۔ فائرنگ کے نتیجے میں ڈرائیور موقع پر ہلاک ہو گیا تھا جب کہ دو کمسن طلبہ زخمی ہوئے ہیں۔
عیسی خان خیل نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کر دی ہے۔
سرچ آپریشن کا آغاز
دہشت گردی اور تشدد کے حالیہ واقعات کے بارے میں سوات کے پولیس حکام یا سول انتظامیہ کچھ بتانے سے گریز کرتی رہی ہے۔
عیسیٰ خان خیل کا مزید کہنا تھا کہ فائرنگ کے واقعے کے بعد پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی بڑی تعداد نے جائے وقوع کو گھیرے میں لے لیا تھا جب کہ علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیاہے۔
سیکیورٹی اداروں کی جانب سے سرچ آپریشن کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں لائی گئیں۔
’ڈرائیور ہی کو نشانہ بنایا گیا‘
ملاکنڈ ڈویژن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس ذیشان اصغر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ابھی تحقیقات شروع کی گئی ہیں اور اس کی تکمیل پر اس واقعے کی نوعیت کے بارے میں کچھ کہا جا سکے گا۔
ڈی آئی جی پولیس کا دعویٰ تھا کہ حملہ آوروں کا نشانہ طلبہ نہیں تھے بلکہ انہوں نے ڈرائیور ہی کو نشانہ بنایا تھا۔
ہلاک ڈرائیور کے ورثا کا احتجاج
صحافی عیسیٰ خان خیل کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں کے بقول حملہ آوروں میں سے ایک کا ہیلمٹ اور سردی سے بچنےکے لیے پہنا گیا جیکٹ جائے وقوع پر ہی رہ گیا ہے جو پولیس نے قبضے میں لیا ہے۔
ورثا اور مقامی افراد نے ہلاک ہونے والے ڈرائیور کی لاش کے ہمراہ خوازہ خیلہ میں احتجاج بھی شروع کر دیا ہے۔
’سوات کے حالات قابو میں ہیں‘
خیبر پختونخوا کی کابینہ میں شامل وزیر اور صوبے کی حکمران جماعت تحریکِ انصاف کے رہنما شوکت علی یوسف زئی نے کہا ہے کہ سوات میں پرانے حالات واپس نہیں آئیں گے۔ البتہ انہوں نے تصدیق کی کہ دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ۔
پشاور پریس کلب میں پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں سوات میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سوات کے حالات قابو میں ہیں جب کہ کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔
انہوں نے سوات اور صوبے کے دیگر علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی یا ان کو سرحد پار افغانستان بھگانے کے بارے میں سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج نے بے مثال طریقے سے کام کرتے ہوئے امن قائم کیاہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور تشدد کے واقعات ردِ عمل کے طورپر ہوتے رہتے ہیں۔
مٹہ میں دھماکہ
ادھر سوات ہی کی تحصیل مٹہ کے پہاڑی علاقے بالا شور کے غیر آباد علاقے میں بم دھماکہ ہوا۔
اس دھماکے میں کسی قسم کے مالی یا جانی نقصان کے بارے میں کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوئی۔
مٹہ کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ متعلقہ علاقے میں اہلکار روانہ کر دیے گئے ہیں اور ان سے موصول ہونے والے اطلاعات کا انتظار ہے۔