رسائی کے لنکس

شیخوپورہ میں آٹھ افراد کے قتل کے واقعے کی انکوائری مکمل؛ پانچ پولیس اہلکار گرفتار


پنجاب پولیس، فائل فوٹو
پنجاب پولیس، فائل فوٹو

پنجاب پولیس نے شیخوپورہ میں آٹھ افراد کے قتل کے واقعے کی انکوائری مکمل کر لی ہے۔ انکوائری میں تھانہ نارنگ کے عملے کی 'غفلت' ثابت ہوگئی اور انسپکٹر جنرل پولیس کے حکم پر تھانہ نارنگ کے ایس ایچ او سمیت پانچ اہلکاروں کو گرفتار کر لیاگیا ہے۔

تحقیقات کے مطابق مقامی افراد نے دو روز قبل ملزم فیض رسول کی طرف سے لوگوں کو زخمی کرنے کی اطلاع دی تھی لیکن تھانہ نارنگ کے عملے نے 'غفلت' کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس (آئی جی) کی خصوصی ہدایت پر ریجنل پولیس آفیسر شیخوپورہ نے نارنگ کا دورہ کر کے واقعے کی انکوائری مکمل کی۔ بعدازاں ایس ایچ او نارنگ انسپکٹر عبد الوہاب، اے ایس آئی محمد لطیف، مشتاق احمد، محمد رفیع اور محرر عمار الحسن جنہیں معطل کر دیا گیا تھا ، اب گرفتار کر لیا ہے۔

پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق وزیرِ اعلی چوہدری پرویزالٰہی نے گرفتار ملزم کے خلاف دو روز قبل شہریوں کو زخمی کرنے پر کارروائی نہ کرنے پر متعلقہ پولیس افسران و اہلکاروں پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا کہناتھا کہ ایس ایچ او اور اہلکار پہلے واقعے پر قانونی کارروائی کرتے تو آٹھ افراد کے قتل کا یہ المناک واقعہ پیش نہ آتا۔ پولیس اہلکاروں نے سنگین غفلت کا مظاہرہ کیا۔

آئی جی پنجاب فیصل شاہکار نے وزیر اعلی چوہدری پرویزالٰہی کو جو ابتدائی رپورٹ پیش کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ملزم فیض رسول نے تیز دھار آلے اور آہنی راڈ سے سڑکوں اور کھیتوں پر سوئے ہوئے آٹھ افراد کو قتل کیا۔

شیخوپورہ پولیس نے ملزم فیض رسول کا ذہنی توازن جانچنے کے لیے محکمۂ صحت کے حکام سے رابطہ بھی کیا ہے جب کہ پیر کو ملزم کا میڈیکل معائنہ کرایا جائے گا۔

وہ رات جب غریب دیہاتیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی

سات اور آٹھ اکتوبر کی درمیانی شب شیخوپورہ کے گاؤں ہچڑ کے غریب دیہاتیوں کے لیے کسی قیامت کم نہ تھی جب وہ معمول کے مطابق اپنی چاول کی فصلوں کی حفاظت کے لیے کھیتوں کے قریب سوئے ہوئے تھے کہ ان پر کلہاڑے سے وار کیے گئے۔

ایف آئی آر کے مطابق 60 سے 65 سالہ سرفراز اور عمیر صابر کو رات 12 بج کر 40 منٹ پر چاول کی فصلوں کے قریب مبینہ طور پر کلہاڑی سے وار کر کے قتل کیا گیا۔

پولیس کے مطابق ملزم فیض رسول یہاں سے فرار ہو کر حویلی مال مویشی پہنچ گیا جہاں رات ایک بج کر 15 منٹ پر چار افراد تنویر، اکرم، فیصل اور محمد شہروز کو مبینہ طور پر کلہاڑی اور آہنی راڈ سے قتل کیا گیا۔

ملزم فیض رسول حویلی سے فرار ہو کر دو بجے کے قریب عنصر فلنگ اسٹیشن پہنچا جہاں اس نے پیٹرول پمپ پر سوئے ہوئے اسد نامی ملازم کو مبینہ طور پر قتل کیا۔ چوتھی جائے وقوعہ رحمان فلنگ اسٹیشن تھی جہاں رات سوا دو بجےکے قریب ملازم دلاور حسین کو کلہاڑی اور راڈ سے قتل کر دیا گیا۔

پولیس کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تمام آٹھ افراد کے قتل ڈیڑھ گھنٹے کے مجموعی دورانیے میں کیے گئے، اس کے علاوہ تمام قتل کے لیے ایک ہی کلہاڑا اور آہنی راڈ استعمال کیا گیا۔

پولیس کے مطابق زیرِ حراست مبینہ ملزم فیض رسول کی عمر 21 سے 22 سال ہے اور اس نے مبینہ طور پر سوئے ہوئے افراد پر اتنی قوت سے وار کیے کہ انہیں مزاحمت کرنے یا چیخ و پکار کا موقع بھی نہ مل سکا۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر فیصل مختارنے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملزم کا نام فیض رسول ولد اعجاز احمد بھٹی ہے جو کہ بظاہر ذہنی طور پر معذور لگتا ہے۔ تاہم اس کا دماغی معائنہ کرایا جائے گا۔ اس سلسلے میں ضروری کاغذات مکمل کیے جارہے ہیں اور محکمۂ صحت کے حکام سے بھی رابطہ کرلیا گیا ہے۔

والد کی وفات کے بعد ملزم کی ذہنی حالت بگڑ گئی: اہلِ علاقہ

ملزم کے اہل خانہ اور گاؤں والوں نے پولیس کو بتایا کہ ملزم کے والد کا چھ ماہ قبل انتقال ہوا تھا جس کا اس نے گہرا اثر لیا اور اس کے بعد سے ہی اس نے نامناسب حرکتیں شروع کردیں۔

ملزم اپنے گاؤں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا لیکن اس کی بدلتی ہوئی ذہنی کیفیت کے باعث کچھ ماہ سے بچے اس کے پاس پڑھنے کے لیے نہیں آرہے تھے۔

اہل علاقہ کے مطابق ملزم نے بے روزگار ہونے کے بعد گاؤں میں آوارہ گردی شروع کردی تھی۔ وہ آنے جانے والوں کو مارنے کی کوشش کرتا جس پر لوگوں نے اس کے گھر والوں کو شکایت کی کہ اس کا علاج کروائیں یا پھر اسے گھر میں بند رکھیں۔

اہلِ علاقہ کا کہنا ہے کہ ملزم کے گھر والوں نے اس کا علاج کسی ذہنی معالج سے نہیں کروایا اور وہ یہ کہتے رہے کہ اس پر سایہ ہوگیا ہے خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔

ملزم کا تعلق گاؤں کوٹ عبداللہ سے ہے جو کہ ہیچڑ گاؤں کے قریب ہی واقع ہے۔ ملزم کے گھر والوں نے پولیس کو بتایا کہ جب سے اس کا ذہنی توازن خراب ہوا تھا اس کے گھر آنے جانے کا کوئی وقت مقرر نہ تھا۔کبھی کبھار تو وہ ساری ساری رات جاگتا بھی رہتا تھا اور اپنے مکان کی چھت پر جاکر اونچی اونچی آواز میں بولتا تھا۔

وقوعہ کی رات جب سارا گاؤں سو رہا تھا اور ملزم سوئے ہوئے افراد کو نشانہ بن رہا تھا ایسے میں لاہور پولیس کے ایک کانسٹیبل کے بر وقت اقدام نے مزید لوگوں کو جانی نقصان سے بچا لیا۔

کانسٹیبل ظفر اقبال رات ڈیوٹی سے گھر واپس جارہا تھا راستے میں رات اڑھائی بجے کے قریب وہ اپنی موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈلوانے کے لیے رکا۔کانسٹیبل ظفر اقبال نے ایک شخص کو پیٹرول پمپ پر مشکوک پایا جس کے ہاتھ میں تیر دھار آلہ اور آہنی راڈ تھا۔ ملزم نے اسی پیٹرول پمپ پر سوئے ایک شخص کا قتل کیا تھا جوکہ اس کا آٹھواں نشانہ تھا۔

ملزم فیض رسول، پولیس کانسٹیبل ظفر اقبال کو دیکھ کر بھاگ نکلا۔ ملزم کے بھاگنے پر کانسٹیبل نے اکیلے ہی اس کا پیچھا کیا اور مقامی پولیس کو اطلاع دی۔ کانسٹیبل ظفر اقبال نے ملزم کا تعاقب موٹر سائیکل پر کیا اور قریبی گاؤں میں جاکر اسے پکڑ لیا۔

ڈی پی او شیخوپورہ کے مطابق ملزم کو اگر بروقت نہ پکڑا جاتا تو وہ مزید لوگوں کو قتل کر سکتا تھا۔

اکیلا شخص آٹھ افراد کو کیسے قتل کرسکتا ہے؟ پولیس اس گروہ کو پکڑے: اہلِ علاقہ کا مؤقف

شیخوپورہ کے گاؤں ہچڑ اور اس کے اردگرد کے دیہات میں اتوار کو سارا دن خوف کی فضا قائم رہی اور لوگ اس واقعے کے بارے میں اپنے اپنے زاویے سے رائے دے رہے ہیں۔

مقتولین کے ورثا اور گاؤں کے بیشتر لوگوں نے پولیس کے اس مؤقف کو مسترد کردیا ہے کہ اکیلے ملزم فیض رسول نے آٹھ افراد کو قتل کیا ہے۔

ایک خاتون ثریا بی بی نے کہا کہ اگر ایک ملزم قتل کرتا تو ایک جگہ پر یہ واقعہ پیش آتا لیکن اس نے چار مقامات پر لوگوں کو مارا۔ ان کے خاندان کے چار افراد اس واقعہ میں مارے گئے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس صرف ایک پاگل شخص پر ملبہ ڈال رہی ہے، یہ صرف ایک شخص کا کام نہیں یہ پورا گینگ ہے۔ پاگل بندہ ایک دو کو مار سکتا ہے اتنے زیادہ لوگوں کو نہیں۔

ایک شہری ذیشان علی نے کہا کہ جسے پاگل کہا جا رہا ہے وہ اتنا ٹرینڈ ہے کہ اس نے لوگوں کو ایسی مہارت سے قتل کیا کہ مرنے والے کسی شخص کی آواز تک نہ نکل سکی، یہ کیسے ممکن ہے؟

100 بچوں کا قاتل جاوید اقبال سیریل کِلر کیسے بنا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:11:03 0:00

انہوں نے کہا کہ جو چار افراد قتل ہوئے وہ سب ایک دوسرے کے قریب ہی سوئے ہوئے تھے تو کیا قاتل کے دس ہاتھ تھے؟ مرنے والوں کی ٹانگیں کس نے پکڑیں؟ کلہاڑا کس نے چلایا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہمیں پولیس سے چاہئیں۔ ان کے بقول پولیس ایک بندے کو پکڑ کر اپنی جان چھڑانے کے بجائے پورے گینگ کو پکڑے۔

ایک شہری محمد منشا نے بتایا کہ ملزم فیض رسول نے دو روز قبل اپنی ماں اور بہن سمیت مقامی اسکول کے پرنسپل زبیر اور ایک راہ گیر کو زخمی کیا تھا۔ پرنسپل محمد زبیر اس وقت میو ہسپتال لاہور میں داخل ہیں اس واقعے کے بعد مقامی لوگوں نے ملزم کو قابو کر کے نارنگ پولیس کے حوالے کیا تھا۔ ملزم کے خلاف تھانہ نارنگ میں دو درخواستیں بھی جمع کرائی گئیں لیکن ملزم کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کی گئی۔

ملزم کی دماغی حالت کی حتمی رپورٹ تو پولیس کی طرف سے ماہرِ امراض کے معائنے کے بعد ہی سامنے آئے گی، تاہم ملزم کی ذہنی حالت سے متعلق گاؤں میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ بعض کے مطابق ملزم کی ذہنی حالت بالکل درست ہے جب کہ چند لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب میں کوئی کلہاڑا گروپ متحرک ہوچکا ہے جوکھیتوں میں سوئے ہوئے افراد کو نشانہ بنا رہا ہے۔

ہتھوڑا گروپ سے مماثلت کیوں؟

پاکستان میں سال 1985 اور 1986 کے دوران ہتھوڑا گروپ متحرک ہوا تھا جس نے پے درپے وارداتوں سے خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔

ہتھوڑا گروپ کے ہاتھوں گھر کے باہر، سڑک یا فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے افراد، مزدور پیشہ یا گداگر، روزگار کی تلاش میں آنے والے، دکانوں اور چھوٹے ہوٹلوں کے ملازمین نشانہ بنے تھے۔

جرائم کے واقعات پر نظر رکھنے والی ماہر ِقانون شکیلہ سلیم رانا کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ اگرچہ ہتھوڑا گروپ اور شیخوپورہ میں ہونے والے آٹھ افراد کے قتل کے واقعات میں مماثلت پائی جاتی ہے لیکن ہتھوڑا گروپ کی گرفتاری کا سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا، جب کہ ان آٹھ افراد کا قاتل زیرحراست ہے۔

شکیلہ سلیم رانا کے مطابق ملزم کا ڈی این اے اور فرانزک ہوگا، ذہنی معائنہ کروایا جائے گا اور کیس کی جامع تحقیقات ہوں گی، تو اگر اس واقعہ میں کوئی اور لوگ بھی شامل ہوئے تو وہ قانون کی گرفت سے بچ نہیں پائیں گے۔

XS
SM
MD
LG