افغانستان سے متصل پاکستان کے سرحدی علاقے میں جمعے کی رات ہونے والے ایک ڈرون حملے میں کم از کم پانچ مشتبہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے لمن میں ہونے والے اس ڈرون حملے میں ایک مقامی عسکریت پسند تنظیم کا اہم کمانڈر بھی مارا گیا ہے۔
سرکاری طور پر اس ڈرون حملے سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ علاقے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ڈرون طیارے نے ایک گھر میں قائم عسکریت پسندوں کے مبینہ مرکز پر دو میزائل داغے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والا مرکز شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر کا تھا۔
اطلاعات ہیں کہ ہلاک ہونے والوں میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والا اہم جنگجو کمانڈر اسداللہ عرف سنگری بھی شامل ہے۔
حافظ گل بہادر کی تنظیم 'شوریٰ مجاہدین' شمالی وزیرستان میں سرگرم رہی ہے جس کے خلاف پاکستانی فوج نے 2014ء میں شروع کیے گئے آپریشن ضربِ عضب میں بھی کارروائیاں کی تھیں۔ اس آپریشن کے بعد حافظ گل بہادر اپنے قریبی ساتھیوں کے ہمراہ افغانستان فرار ہو گئے تھے۔
پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں یہ ڈرون حملہ لگ بھگ 15 ماہ کے وقفے کے بعد ہوا ہے۔ اس سے قبل 8 فروری 2018ء کو شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے گرویک میں حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے پر ہونے والے ڈرون حملے میں سات مبینہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ ڈرون حملے میں پاکستان سے افغانستان سرحد پار کرنے والے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جس سے لگتا ہے کہ پاکستان سے افغانستان میں مبینہ دراندازی کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ اچھے اور برے طالبان کی تفریق ختم ہونے تک خطے میں قیامِ امن مشکل ہے۔ ان کے بقول، عالمی طاقتیں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہیں اور یہ ڈرون حملہ اسی ناراضی کا اظہار ہو سکتا ہے۔
ڈرون حملہ کس نے کیا؟
تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ابھی تک واضح نہیں کہ یہ ڈرون حملہ امریکہ نے کیا ہے یا نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ کارروائی پاکستانی فوج کی جانب سے کی گئی ہے۔
محمود شاہ کے مطابق چند روز قبل اس علاقے میں عسکریت پسندوں نے سیکورٹی فورسز پر حملہ کیا تھا اور بعد میں ان عسکریت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائی بھی کی گئی تھی۔
قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملے
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ 2004ء میں شروع ہوا تھا۔ اب تک ان علاقوں میں لگ بھگ 500 ڈرون حملوں میں 2000 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
ہلاک شدگان میں اکثریت مشتبہ ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کی ہے۔ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہان بھی امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے تھے۔
پاکستان ان امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے ہوئے اسے اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتا آیا ہے۔ لیکن امریکی حکام کے مطابق ڈرون ٹیکنالوجی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک موثر ہتھیار ہے۔