دبئی میں ایک نئے میوزیم کے دورازے عوام کے لیے کھل رہے ہیں جو نہ صرف فن تعمیر کا ایک دلکش اور نظروں کو اپنی جانب کھینچ لینے والا نمونہ ہے بلکہ وہ اپنے اندر بہت سی حیرتیں بھی لیے ہوئے ہے۔ اسے مستقبل کا عجائب گھر کہا جا رہا ہے۔
آڑھے ترچھے شہتیروں کے نیٹ ورک پر قائم میوزیم کی عمارت سات منزلوں پر مشتمل ہے جو اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے شمسی توانائی پر انحصار کرتی ہے۔ عمارت کا ڈیزائن ہلالی شکل کا ہے اور اس پر عربی میں خوبصورت خطاطی کی گئی ہے۔
نیا اور جدید میوزیم، دنیا کی سب سے بلند عمارت "برج خلیفہ" کی کھڑکیوں سے دیکھنے والوں کے لیے ایک دلکش نظارہ پیش کرتا ہے۔
آج کا دبئی 50 برس پہلے کے دبئی سے یکسر مختلف ہے۔
متحدہ عرب امارات کی سائنسی ترقی اور خلائی ادارے کی وزیر مملکت سارہ الامیری کہتی ہیں کہ اگر آپ 1971 سے قبل کے دبئی پر نظر ڈالیں تو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ اس وقت سڑکیں تھیں، نہ بجلی تھی، نہ ہی تعلیم کا انتظام تھا، غرض کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن آج ہم اگلے 50 برس کا سوچ رہے ہیں کیونکہ ہمیں باقی دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے تیزی سے ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔
50 برس پہلے دبئی سمندر سے موتی تلاش کرنے والوں کی آبادی تھی، لیکن پھر تیل اور گیس کی دریافت نے اسے پانچ عشروں میں دنیا کے ساتھ مربوط ایک اہم عالمی مرکز میں تبدیل کر دیا ہے۔
متحدہ عرب امارت کا ہدف معدنی ایندھن پر اپنا انحصار گھٹاتے ہوئے صفر پر لانا ہے تاکہ کرہ ارض کو گلوبل وارمنگ سے نجات دلانے کے لیے وہ دیگر اقوام کے ساتھ مل کر اپنا حصہ ڈال سکے۔
عجائب گھر کے دروازے سے آپ عمارت کے اندر ہی نہیں بلکہ حیرتوں کے ایک نئے جہان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اندر کے مناظر آپ کو اپنے سمارٹ فون کی سکرین تک سے لاتعلق کر دیتے ہیں۔کیونکہ عمارت کے اندر جا بجا بڑی بڑی ڈیجیٹل سکرینیں نصب ہیں جو آپ کو اپنی زمین، اس کے فطری حسن کو درپیش مسائل، کرہ ارض پر پائے جانے والی حیات کی اقسام کے بارے میں معلومات مہیا کرتی ہیں۔
متحدہ عرب امارات کی وزیر مملکت سارہ الامیری کہتی ہیں کہ یہ میوزیم پائیدار مستقبل اور فطرت کے قریب تر کرہ ارض پر آپ کو آگے بڑھنے اور معیشت کو ترقی دینے کا راستہ دکھاتا ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ آج ہم سب جس چیلنج کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ میوزیم ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے نئی راہیں تحلیق کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔
میوزیم کے کرییٹو ڈائریکٹر برینڈن مک گیرک کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ اس دور میں لوٹ جائیں جب انسان جنگلوں میں شکار کر کے اپنی گزر بسر کرتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میوزیم کا مقصد لوگوں کو اس بارے میں سوچنے کی ترغیب دینا ہے کہ کیا کچھ ممکن ہے اور اسے حقیقی زندگی میں کیسے شامل کرنا ہے۔
عجائب گھر میں آنے والے اڑنے والی ٹیکسیوں، ونڈ فارمز اور زمین کے مدار میں گردش کرنے والے ایک بڑے مصنوعی سیارے کو دیکھتے ہیں۔ انہیں یہ منظر بھی دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح چاند پر نصب ان گنت شمسی پینل زمین کو توانائی مہیا کر رہے ہیں اور کرہ ارض پر انسان اور دیگر جاندار مل جل کر رہ رہے ہیں۔
مک گیرک کہتے ہیں کہ ہم نے عجائب بھر میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے ایک جگہ مشترکہ وسائل کس طرح اکھٹے کرکے انہیں کام میں لایا جا سکتا ہے۔
میوزیم کے ایک حصے میں سائنس کی ترقی سے متعلق اسلام کے قدیم زریں عہد کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس حصے میں بتایا گیا ہے ماضی میں مسلم سائنس دان ستاروں اور اجرام فلکی کے مطالعے، وقت کی پیمائش اور سمتوں اور فاصلوں کے تعین کے لیے کس طرح کے پیچیدہ آلات استعمال کرتے تھے۔
میوزیم کا ایک حیرت میں ڈالنے والا حصہ سیاہ آئینوں سے بنایا گیا ہے جس میں شیشے کے چمکدار ستون ہیں۔ ان کے ذریعے ان جانوروں کو اجاگر کیا گیا ہے جن کی نسل کو دنیا سے ختم ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔ان میں قطبی ریچھ بھی شامل ہے کیونکہ دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث قطبین پر جمی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔
میوزیم جمعے کو عوام کے لیے کھل رہا ہے۔ داخلے کا ٹکٹ 40 ڈالر کا ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)