ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نےاتوار کے روز نیدرلینڈ کو متنبہ کیا کہ ترکی کے وزیر خارجہ کو داخل ہونے سے روکنے اور ترک تارکینِ وطن کو ریلیاں نکالنے سے باز رکھنے کی غرض سے ہفتے کو ایک اور ترک وزیر کو بے دخل کرنے پر نیدرلینڈ کو ''قیمت چکانی پڑے گی''۔
اردوان نے نیٹو کے ایک اتحادی ملک، ہالینڈ کی حکومت پر ''نازی'' اور ''فاشسٹ" ہتھکنڈے اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ محض ایک جابرانہ حکومت ہی نیدرلینڈ کا سفر کرنے والوں کی راہ روک سکتی ہے۔
ترکی کے دونوں اہل کا ر اُن ترک تارکینِ وطن کے ریلیوں سے خطاب کرنے والے تھے جن کا مقصد آئندہ ماہ کے ریفرنڈم میں اردوان کی جیت کا حصول تھا، تاکہ اُنھیں نئے اضافی اختیارات مل سکیں۔
وزیر اعظم مارک رُوٹے کی ڈچ حکومت کو دوبارہ انتخاب کے لیے بدھ کے روز گرت وائلڈرز کی اسلام مخالف پارٹی سے مقابلہ ہوگا۔ ہالینڈ نے ترک وزیر خارجہ مولود اغلو کو روٹرڈم کے شہر میں آمد سے روک دیا تھا۔ اس کے بعد 'فیملی اور سوشل سکیورٹی' کی وزیر فاطمہ بتول سیان کو بندرگاہ والے اس شہر میں قائم ترک سفارت خانے میں داخل ہو نے سے روک دیا گیا، اور بعدازاں، اُنھیں ملک سے بے دخل کرکے جرمنی روانہ کر دیا گیا۔
اظہارِ برہمی کرتے ہوئے، اردوان نے استنبول میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ ''ٹھیک ہے، ہالینڈ! اگر بدھ کو ہونے والے انتخابات کا بہانہ بنا کر آپ ترک ڈچ تعلقات کو قربان کرنا چاہتے ہو، تو آپ کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی''۔
اس سے قبل، ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اتوار کو کہا تھا کہ ترکی ہالینڈ کے"نا قابل قبول رویے کا سخت طریقے سے جواب دے گا۔"
ترکی کے وزیر اعظم کا یہ بیان ہالینڈ کی طرف سے ترکی کی ایک وزیر کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے اور دوسرے کو ملک بدر کرنے کے بعد سامنے آیا۔
اس کے ساتھ ترک عہدیداروں نے انقرہ میں ڈچ سفارت خانے کو سیل کر دیا ہے اور انہوں نے کہا کہ ڈچ سفیر کا ان کے ملک میں خیر مقدم نہیں کیا جائے گا۔
قبل ازیں ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم میں ترکی کے قونصل خانے کے باہر صدر رجب طیب اردوان کے حامیوں کے احتجاجی مظاہرے کو ڈچ پولیس نے منتشر کر دیا۔
یہ مظاہرین ایک ترک وزیر کے ترکی کے قونصل خانے میں داخل ہونے سے روکنے اور ایک دوسرے وزیر کو ملک سے نکالنے پر احتجاج کر رہے تھے۔
پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں سے پہلے تقریباً دو ہزار افراد روٹرڈیم میں واقع ترکی کے قونصل خانے کے باہر صدر طیب اردوان کی حکومت کی حمایت کے اظہار کے لئے جمع ہوئے تھے جو اپنے اختیارات میں اضافہ کے لئے آئندہ ماہ ایک ریفرنڈم کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق گزشتہ نصف شب کے بعد گھوڑوں پر سوار اور پیدل پولیس نے ان مظاہرین کو قونصل خانے سے دور کرنے کے لئے کارروائی شروع کی۔
یورپ بھر میں ترکی میں ہونے والے ریفرنڈم کی مہم چلانے کی مخالفت کی وجہ سے ہفتہ کو ترک وزیر خارجہ مولود اغلو کو ہالینڈ آنے سے روک دیا گیا تھا۔ صدر اردوان کی طرف سے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے ہالینڈ پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے "نازیوں کی باقیات" قرار دیا۔
ہالینڈ کی طرف سے اٹھائے گئے اقدام پر اغلو نے کہا کہ ترکی ردعمل میں ہالینڈ کے خلاف "تمام ضروری اقدام اٹھائے گا"۔ انہوں نے ہالینڈ کے خلاف سخت اقتصادی تعزیرات عائد کرنے کی دھمکی بھی دی۔
دوسری طرف ترکی کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ اغلو کو واپس بھیجنے کے بعد ترکی کی حکومت کے ایک فیملی اور سوشل سکیورٹی کی وزیر فاطمہ بتول سیان جرمنی کے راستے ہالینڈ میں داخل ہوئیں اگرچہ جس تقریب میں انہیں خطاب کرنا تھا وہ منسوخ کر دی گئی ہے۔
تاہم اس وقت صورت حال کشیدہ ہو گئی جب فاطمہ بتول کو روٹرڈیم میں ترکی کے قونصل خانے میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ اس وقت قونصل خانے کے باہر سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین ترکی کا پرچم لہراتے ہوئے ان سے ملنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تاہم ڈچ حکام وزیر کو جرمنی کی سرحد کی طرف واپس لے گئے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے نے روٹرڈیم کے مئیر احمد ابو طالب کے حوالے سے بتایا ہے کہ فاطمہ کو "اس کے ملک بھیج دیا گیا ہے جہاں سے وہ آئیں تھیں۔"
یورپی یونین کے کئی رکن ممالک نے بعض وجوہات کی بنا پر اپنے ہاں ایسے جلسہ و جلوس پر پابندی عائد کی ہوئی ہے جو ترکی کے وزیر آئندہ ماہ ترکی میں ہونے والے ریفرنڈم میں ترکی شہریوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ انقرہ یورپ میں مقیم لاکھوں ترک ووٹروں کی حمایت اپریل میں ہونے والے ریفرنڈم کے لئے حاصل کرنا چاہتا ہے جو صدر اردوان کو زیادہ اختیارات دینے کے لئے منعقد کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ سال جولائی میں ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لئے جانے اور ہزاروں کو نوکریوں سے برخاست کرنے پر یورپی ملکوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ترکی پر تنقید کی گئی ہے۔