|
بائیڈن کو مستعفی ہو جانا چاہئیے، ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ مطالبہ اتوار کو صدر جو بائیڈن کے اس اعلان کے کچھ ہی دیر بعد کیا کہ وہ نومبر کی صدارتی دوڑ سے دست بردار ہو رہے ہیں۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں جس میں فنڈ ریزنگ کی نئی اپیل بھی تھی، کہا " بد دیانت جو بائیڈن صدر کے انتخاب کے لیے موزوں نہیں تھے اور وہ یقیناً اس منصب کے لیے بھی موزوں نہیں۔۔ نہ کبھی تھے۔"
ٹرمپ نے بائیڈن کو ملکی تاریخ کا اب تک کا بد ترین صدر کہا اور کہا کہ بائیڈن، "انتخابی دوڑ سے مکمل بے وقار ہو کر نکلے ہیں۔"
ایوانِ نمائندگان کے سپیکر مائیک جانسن اور ٹرمپ کے وفادار دیگر ریپبلکن قانون سازوں نے ٹرمپ کے مطالبات دہرائے۔
جانسن نے ایک بیان میں کہا، "اگر بائیڈن صدر کا انتخاب لڑنے کے قابل نہیں تو وہ صدر کے طور پر خدمات انجام دینے کے قابل بھی نہیں۔ انہیں اپنے منصب سے فوری طور پر استعفےٰ دینا چاہئیے۔ 5 نومبر سر پر ہے۔"
کانگریس وومن ایلس اسٹیفانک ریپبلکنز کی ایوان میں چوتھے درجے کی عہدیدار ہیں۔ انہوں نے کہا، " اگر جو بائیڈن دوبارہ انتخاب کے لیے الیکشن نہیں لڑ سکتے تو وہ امریکہ کے صدر کے منصب کے لیے بھی فٹ نہیں ہیں۔ انہیں فوری طور پر ریٹائر ہو جانا چاہئیے۔"
SEE ALSO: امریکی قانون ساز بائیڈن کی انتخابی دوڑ سے باہر ہونے پر حیرانایوان میں اکثریتی لیڈروہپ ٹام ایمر نے،جو ریپبلکنز کے تیسرے درجے پر عہددار ہیں سوشل میڈیا پر کہا، "اگر ڈیمو کریٹک پارٹی سمجھتی ہے کہ بائیڈن دوبارہ انتخاب لڑنے کے اہل نہیں تو وہ یقیناً ہمارے نیوکلئیر کوڈز کو کنٹرول کرنے کے بھی اہل نہیں۔ بائیڈن کو فوری طور پر اپنا منصب چھوڑ دینا چاہئیے۔"
مائیکل تھورننگ، بائی پارٹیسن پالیسی سینٹر میں ڈائریکٹر آف اسٹرکچرل ڈیمو کریسی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، قانونی طور پر ریپبلکنز کی جانب سے بائیڈن کے استعفے کے مطالبات کی کوئی حیثیت نہیں۔ صدر کا اختیار ہے کہ وہ اپنے عہدے کی باقی مدت پوری کریں۔
انہوں نے وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا، " آئین کسی صدر سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ وہ آئندہ الیکشن اور افتتاحی تقریب منعقد ہونے تک صدر کے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے دوبارہ انتخاب میں حصہ لے۔"
وائٹ ہاؤس نے ریپبلکنز کے مطالبات پر کمنٹس کے لیے وائس آف امریکہ کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ڈیمو کریٹس کی بڑھتی تحسین
پیر کے دن تک کسی ڈیمو کریٹک لیڈر نے ریپبلکنز کے، بائیڈن کے استعفے کے مطالبات کا جواب نہیں دیا تھا۔لیکن بائیڈن کے اس انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کے جواب میں انہوں نے صدر کے قانون سازی کے ریکارڈ اورزندگی بھر کی خدمات کی بھرپور تعریف کی۔
سینٹ میں اکثریتی لیڈر چک شمر نے ایک بیان میں کہا،" جو بائیڈن نہ صرف ایک عظیم صدر اور عظیم قانون ساز ہیں بلکہ وہ حقیقتاً ایک شاندار انسان بھی ہیں۔"
انہوں نے کہا،" ان کا فیصلہ آسان نہیں تھا، لیکن ایک مرتبہ پھر انہوں نے اپنے ملک، اپنی پارٹی اور ہمارے مستقبل کو مقدم رکھا۔"
ایک بیان میں ایوان میں ڈیمو کریٹک لیڈر حکیم جیفریز نے بائیڈن کو " امریکی تاریخ کے انتہائی کامیاب اور انتہائی اہم لیڈروں میں سے ایک قرار دیا۔"
ایوانِ نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پلوسی نے جو اطلاعات کے مطابق ان متعدد قانون سازوں میں شامل تھیں جو صدر بائیڈن کو انتخابی دوڑ سے الگ ہونے پر آمادہ کر رہے تھے، بائیڈن کو ایک ایسا محبِ وطن امریکی قرار دیا جو ہمیشہ اپنے ملک کو مقدم رکھتا ہے۔"
انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا،" انکی وژن، اقدار اور قیا دت کی میراث انہیں امریکی تاریخ کا سب سے کامیاب صدر بناتی ہے۔"
سابق صدر باراک اوباما نے ایک بیان میں کہا کہ انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کا بائیڈن کا فیصلہ اس بات کی یاددہانی ہے کہ " وہ اعلیٰ درجے کے محبِ وطن ہیں۔"
ایکس پر انہوں نے لکھا،" اس الیکشن میں کیا داؤ پر لگا ہے یہ جو (بائیڈن)، کسی اور کی نسبت زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ کہ اگر ہم ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں واپس آنے دیتے ہیں اور ریپبلکن پارٹی کو کانگریس کا کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے تو کیسے ہر وہ چیز جس کے لیے انہوں نے زندگی بھر جدوجہد کی اور ہروہ چیز جس پر ڈیمو کریٹک پارٹی قائم ہے، خطرے میں پڑ جائے گی ۔
سیاست کا کھیل
بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کے اعلان کے بعد ایسے میں جب ڈیموکریٹس کا آئندہ کا لائحہ عمل غیر یقینی ہوگیا ہے، ریپبلکنز کی جانب سے بائیڈن کے استعفے کے مطالبات نے امریکی سیاست کی بے ترتیبی میں اضافہ کر دیا ہے۔
یونیورسٹی آف ورجینیا میں سینٹر فار پالیٹکس کے ڈائریکٹر لیری سیباتو نے ریپبلکنز کے بارے میں کہا کہ وہ ،"سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں۔"
عام فہم ہمیں بتاتا ہے کہ بائیڈن کے پاس اس وقت دو کل وقتی کام ہیں۔ ایک تو صدر کے فرائض اور دوسرے صدر کا انتخاب لڑنا۔ وہ کہتے ہیں، "اب ان کے پاس ایک ہی کل وقتی کام ہوگا اور وہ اس کے لیے خود کو بہتر ثابت کر چکے ہیں۔ وہ اب باقی ماندہ مہینے پورے کر سکتے ہیں اور کچھ ڈھیلے معاملات درست کر سکتے ہیں اور پھر وقار کے ساتھ سبکدوش ہو سکتے ہیں۔"
بائیڈن نے ملک کے نام ایک خط میں جو انہوں نے اتوار کی دوپہر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا، اعلان کیا کہ وہ ڈیموکریٹک صدارتی ٹکٹ سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ان کا دوبارہ انتخاب میں کھڑے ہونے کا ارادہ تھا، لیکن ان کا خیال ہے کہ "یہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے کہ میں اس دوڑ سے دستبردار ہو جاؤں اور پوری توجہ اپنی بقیہ مدت کے لیے صدر کے طور پر اپنے فرائض کو پورا کرنے پر مرکوز کروں"۔
اس اعلان نے، ٹرمپ کے خلاف گزشتہ ماہ کے مباحثے میں کمزور کارکردگی کے بعد ڈیموکریٹس کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے درمیان 2024 کی دوڑ میں رہنے کے ان کے فیصلے کو تبدیل کر دیا۔
یونیورسٹی آف شکاگو ہیرس سکول آف پبلک پالیسی میں امریکی سیاست کے پروفیسر ویلم ہاویل، سڈنی سٹین نے کہا، "بائیڈن کے الگ ہٹنےکے بعد، اب قومی توجہ پوری طرح ڈیموکریٹک پارٹی پر مبذول ہو گئی ہے، اور وہ بہتر کارکردگی سے اس توجہ کو اچھے استعمال میں لائیں گے ۔"
انہوں نے وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا،"انہیں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا چاہیے، مستقبل کے لیے اپنے وژن کی تشہیر کرنی چاہیے، اور اس صدارتی مہم کے بیانیے کو تبدیل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
ایسے میں جب ان کے مخالف ڈیموکریٹس کے پیغام کے بارے میں الجھن پیدا کر رہے ہیں، یہ ایک مشکل کام ہے۔ بائیڈن نے نائب صدر کاملا ہیرس کی ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی حاصل کرنے کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس ہفتے اپنے فیصلے کے بارے میں مزید بات کریں گے۔
بائیڈن کے دست بردار ہونے کے اعلان کے گھنٹوں بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں، وائٹ ہاؤس نے کہا کہ بائیڈن نے "کئی اراکین کانگریس، گورنرز اور حامیوں سے بات کی ہے، اور وہ آج رات اور کل کلیدی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے۔"