کبھی ملکی حالات اور کبھی غیر مقبولیت، امریکی صدور کے ایک مدت تک صدر رہنے کا باعث بنی۔
|
ویب ڈیسک۔امریکہ میں اگرچہ بیشتر موجودہ صدور دوبارہ انتخاب کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن پوری امریکی تاریخ میں ایسی قابل ذکر مثالیں موجود ہیں جب موجودہ صدور نےاس کا موقع ہونے کے باوجود دوبارہ الیکش لڑنے سے انکار کر دیا۔
صدر جو بائیڈن نے اتوار کواس وقت ہفتوں سے جاری قیاس آرائیاں ختم کر دیں جب انہوں نے2024 کے انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کیا ۔ان کا یہ فیصلہ ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن سے چند ہفتے قبل کیا گیا اور بائیڈن ان صدور کی مختصر فہرست میں شامل ہو گئے جو دوبارہ انتخاب کے اہل تو تھے لیکن انہوں نےالیکشن میں حصہ نہ لینے کا انتخاب کیا۔
جیمز کے پولک
جیمز کے پولک نے 1845 میں مخصوص اہداف کے ساتھ صدارتی فرائض سنبھالے۔ ان کے اہداف میں ٹیکساس کا الحاق اور اوریگون علاقے کا حصول بھی شامل تھا۔ اس وقت صدارتی مدت کی کوئی حد مقرر نہیں تھی،اور امیدواروں میں ذاتی طور پرانکساری کا اظہارکرتے ہوئے دوبارہ انتخاب میں حصہ نہ لینا عام بات تھی۔ پولک نے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے بعد صرف ایک صدارتی مدت کے لئے کئے گئےاپنے عہد کا احترام کیا اور 1848 میں دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔
جیمز بکانن
1856 میں منتخب ہونے والے جیمز بکانن نے بھی صدر کی حیثیت سے صرف ایک صدارتی مدت کے لئے فرائض کی ادائیگی کا عہد کیا، لیکن 1860 میں اس عہد کی پاسداری کا فیصلہ ممکنہ طور پر ملک کی ہنگامہ خیز صورتحال اور اپنی غیر مقبولیت سے متاثر ہوا تھا۔ بکانن کی صدارت غلامی کے موضوع پر بڑھتی ہوئی قومی تقسیم کو مؤثر طریقے سے حل کرنے میں ناکامی سے متاثر ہوئی ۔ یہ اختلاف اور تقسیم بالآخر خانہ جنگی کا باعث بنی اور ان کی صدارتی مدت کے اختتام تک ڈیموکریٹک پارٹی شمالی اور جنوبی دھڑوں میں بٹ گئی۔
ردر فرڈ بی ہیز
ردر فرڈ بی ہیز نے ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی کو قبول کرنے پرعہد کیا کہ وہ صرف ایک مدتِ صدارت کے لیے کام کریں گے اور اپنےاس وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے 1880 میں دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔۔ان کے اس فیصلے کا تعلق کسی حد تک 1876میں ان کے ابتدائی انتخاب کے تنازعے سے تھا۔ الیکشن میں دھوکہ دہی کے دعووں کی وجہ سے متعدد ریاستوں میں الیکٹورل ووٹ متنازعہ ہوگئے اور اگرچہ ایک خصوصی دو طرفہ کمیشن نے ہیز کے حق میں فیصلہ کیا تھا، لیکن بیشتر ڈیموکریٹس نے ان کی قانونی حیثیت کو کبھی بھی پوری طرح سے قبول نہیں کیا۔
کیلون کولیج
صدر کیلون کولیج نے 1927 میں یہ اعلان کر کے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا کہ وہ 1928 میں صدر کے لیے انتخاب لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
کولیج نے 1923 میں وارن جی ہارڈنگ کی موت کے بعد صدارت کا منصب سنبھا لا تھااور 1924 میں اپنے طور پر انتخاب میں کامیابی بھی حاصل کر لی تھی اپنی مقبولیت اور مضبوط معیشت کے باوجود کولیج نے دوسری مدت کےلئے صدارتی منصب کے حصول کا انتخاب نہیں کیا۔ انہوں نے بعد میں اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ وہ کبھی بھی طاقت یا شہرت میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اور عوامی زندگی کے تصنع اور غلط فہمیوں سے چھٹکارے کے لیے تیار تھے۔
ہیری ایس ٹرومین
صدر ہیری ایس ٹرومین نے صدارتی منصب کی تقریباً دو مکمل مدتیں گزارنے کے بعد 1952 میں دوبارہ انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔
1945 میں فرینکلن ڈی روزویلٹ کی موت کے بعد ٹرومین صدر بن گئے تھے۔ 1948 میں مکمل مدت کے لیے انتخاب میں کامیاب ہوئے اور دوبارہ انتخاب میں حصہ لینےپر کافی غور کیا تھا۔
تاہم جاری کوریائی جنگ اور اپنی انتظامیہ میں بدعنوانی کے اسکینڈلز کی وجہ سے مقبولیت میں کمی کا سامنا کرتے ہوئےٹرومین نے انتخابی دوڑ سے دستبرداری کے فیصلے کا اعلان کیاجس کے نتیجے میں ڈیموکریٹک پارٹی کو نیا امیدوار نامزد کرنے کا اختیار مل گیا۔
SEE ALSO: وہ امریکی صدور جو قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنےلنڈن بی جانسن
صدر لنڈن بی جانسن نے1968 میں ویتنام جنگ کی بڑھتی ہوئی مخالفت اور اپنی پارٹی کے اندر سےدرپیش چیلنجوں کے تناظرمیں یہ اعلان کر کے قوم کو حیران کر دیا کہ وہ دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔ جانسن نے 1963 میں جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد صدارت کا عہدہ سنبھالا تھااور 1964 میں مکمل مدت کے لئے منتخب ہو گئے تھے۔ لیکن جب جنگ مخالف جذبات میں اضافہ ہوا اور ان کی مقبولیت میں کمی آئی توجانسن نے مشہور اعلان کرتے ہوئے انتخاب سے الگ رہنے کا ارادہ کیا۔ "میں اپنی پارٹی کی جانب سے ایک اور مدت کےلئے صدر کے طور پرنامزدگی لیے نہ توکوشش کروںگا اورنہ ہی اسے قبول کروں گا۔"
جو بائیڈن
2020 میں جو بائیڈن نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اپنی عمر کے بارے میں خدشات کے جواب میں کہا کہ وہ صرف ایک مدت کے لیے صدارتی فرائض انجام دیں گے اور خود کو ایک عبوری امیدوارقرار دیا۔ تاہم 2024 میں بائیڈن نے ڈیموکریٹک پارٹی سے نامزدگی حاصل کرنا چاہی اور ان کا کہنا تھا کہ قوم کو درپیش متعدد چیلنجز کے باعث انہیں مزید کام کرنا ہے۔
انہوں نے عملی طور پر ڈیموکریٹک ریاستی پرائمریوں میں حصہ لیا اورنامزدگی کے حصول میں تقریبا بلا مقابلہ ہی کامیاب رہے اور مندوبین کی اکثریت کی منظوری حاصل کر لی۔
اگرچہ81سالہ بائیڈن نے ابتدائی طور پر ان تجاویز کی مخالفت کی تھی کہ ان کی بڑھتی عمر اور عوام میں اپنی کارکردگی کی کم ہوتی مقبولیت ڈیموکریٹس کے انتخابی امکانات کو نقصان پہنچائے گی لیکن آخر کار انہوں نے انتخابی دوڑ سے الگ ہونے اور نامزدگی کے لیے نائب صدر کاملا ہیرس کی حمایت کرنے کا انتخاب کیا۔
حالیہ دہائیوں میں اہل امیدواروں کے لیے دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کی توقع ایک طے شدہ امرِ بن چکا ہے جس کی وجہ سےبائیڈن کا الگ ہو جانے کا فیصلہ غیر معمولی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن امریکی تاریخ میں زیادہ عرصہ دوبارہ انتخاب کے حصول کی توقع نہیں کی جاتی تھی اور بعض اوقات اسے حقارت سے دیکھا جاتا تھا۔ اگرچہ سیاست دان اکثر مختلف عوامل سے متاثرہوتے ہیں لیکن ایک موجودہ صدرکی جانب سے اس طرح صدارتی دوڑسے الگ ہونے کو یا توکسی بحران کا آثار سمجھا جاتا ہے یا پھر اسے ایک ذمہ دارانہ اقدام کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو نئی قیادت کو ابھرنے کا موقع دے رہا ہو۔