رسائی کے لنکس

امریکی انتخابات: خارجہ پالیسی کے اہم مسائل اور صدارتی امیدوار


جارجیا کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مک کیمش پویلین میں نشریاتی ادارے سی این این کے تحت پہلے صدارتی مباحثے کے انتظامات کو آخری شکل دے دی گئی ہیں۔ بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان مباحثہ 27 جون کو ہو رہا ہے۔
جارجیا کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مک کیمش پویلین میں نشریاتی ادارے سی این این کے تحت پہلے صدارتی مباحثے کے انتظامات کو آخری شکل دے دی گئی ہیں۔ بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان مباحثہ 27 جون کو ہو رہا ہے۔
  • خارجہ پالیسی کے مسائل امریکی صدارتی انتخابات میں ایک اہم موضوع کے طور پر شامل ہیں اور پہلے مباحثے میں دونوں امیدواروں کی جانب سے اس پر بات متوقع ہے۔
  • پیو ریسرچ سینٹر کی ایک دستاویز کے مطابق امریکیوں کی اکثریت دہشت گرد حملے روکنا، ملک کو منشیات سے محفوظ رکھنا اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی روک تھام کو سب سے اہم سمجھتی ہے۔
  • امریکی انتظامیہ روس کی یوکرین میں جارحیت، چینی کی جانب سے درپیش اقتصادی چیلنج اور مشرق وسطی کی بھڑکتی ہوئی صورت حال سے نمٹنا اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شمار کرتی ہے۔
  • خارجہ پالیسی کے معاملے میں دونوں پارٹیوں کے صدرارتی امیدوار مختلف سوچ اور نقطہ نظر رکھتے ہیں۔

روس کی جارحیت، چین کی جانب سے درپیش اقتصادی چیلنجز، مشرق وسطیٰ میں جاری تشدد اور نازک عالمی تعلقات جیسے حالات سے نمٹنا، خارجہ پالیسی کے وہ اہم مسائل ہیں جن سے نومبر کے انتخابات میں جیتنے والا امدوار، خواہ وہ بائیڈن ہوں یا ڈونلڈ ٹرمپ، ان سے بچ نہیں سکتے۔

ایسے میں جبکہ یہ دونوں صدارتی امیدوار، جمعرات کو اپنے پہلے صدارتی مباحثے میں حصہ لے رہے ہیں، وہ ممکنہ طور پر اپنی گفتگو کے نکات میں یہ اجاگر کریں گے کہ وہ کس طرح کہ عالمی منظرنامے پر امریکہ کی بالادست حیثیت قائم کرنا چاہیں گے۔

آسٹن میں قائم یونیورسٹی آف ٹیکساس میں تاریخ کے پروفیسر جیریمی سوری کہتے ہیں کہ فرق زیادہ واضح نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ بائیڈن کا نقطہ نظر سرد جنگ کی بازگشت، آزاد خیال بین الاقوامیت اور زبردست حقیقت پسندی کا مجموعہ ہے۔ جب کہ ٹرمپ کی سوچ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کے امریکہ کی بازگشت، تنہائی پسندی اور یک طرفیت کی جانب جھکاؤ پر مبنی ہے۔

آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ وہ دونوں خارجہ پالیسی کے ان اہم معاملات کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

اٹلانٹا میں جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مک کمیش پویلین میں پہلے صدراتی مباحثے کے انتظامات کو آخری شکل دی جا رہی ہے۔ 26 جون 2024
اٹلانٹا میں جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مک کمیش پویلین میں پہلے صدراتی مباحثے کے انتظامات کو آخری شکل دی جا رہی ہے۔ 26 جون 2024

روسی جارحیت

بائیڈن انتظامیہ نے فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے سے پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی اور انہوں نے جارحیت جاری رہنے تک یوکرین کی حمایت کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ لیکن اس سال یوکرین کی مدد میں اس وقت کمی آئی جب کانگریس کے ریپبلکن ارکان نے 61 ارب ڈالر کے امدادی پیکج کو چھ ماہ تک روکے رکھا۔

جولائی میں واشنگٹن میں منعقد کیے جانے والے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں، بائیڈن، یوکرین میں جاری جنگ کے لیے اتحادیوں کی حمایت کو بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ جب کہ یوکرین کے ساتھ تعاون کرنے کی ذمہ داریاں یورپ میں اتحادیوں کو سونپیں گے۔ اس اقدام کو ایک مخالف امریکی کانگریس یا مستقبل کے صدر کی جانب سے تنازع سے متعلق اقدامات کو بچانے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

یوکرین تنازع کے متعلق ٹرمپ کا نظریہ پیچیدہ، متضاد اور اس قوم کے لیڈر سے اپنے تجربات سے رنگا ہوا ہے۔ یہ آخرکار ، یوکرین کے صدر ولادو میر زیلنسکی کے ساتھ جولائی 2019 کی ایک فون کال تھی جس نے ان کے پہلے مواخذے کو جنم دیا تھا۔

ریپبلکنز کی اکثریت نے، جن کا سینیٹ پر غلبہ تھا، انہیں ان الزامات سے بری کر دیا کہ انہوں نے غلط طریقے سے ایک غیر ملکی طاقت سے اپنے دوبارہ منتخب ہونے کے لیے مدد مانگی اور بائیڈن کو سیاسی طور پر بدنام کرنے کے لیے زیلنسکی سے مدد کے لیے کہا۔

جنگ کے بارے میں ٹرمپ نے حال ہی انٹرویو لینے والے سے کہا تھا کہ میں اسے وائٹ ہاؤس میں منتخب صدر کے۔ طور پر داخل ہونے سے پہلے طے کر لوں گا۔

امریکی انتخابات : بائیڈن، ٹرمپ اور مشرق وسطی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:21 0:00

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ یہ کیسے کریں گے۔

بیلر یونیورسٹی میں سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سرگئی کودلیا کا کہنا ہے کہ، ’انہوں نے صرف کچھ نوعیت کی بات چیت اور مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت کی وکالت کی ہے اور انہوں نے کہا کہ وہ پوٹن اور زیلنسکی کے درمیان مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں، لیکن انہوں نے کبھی بھی اس امن معاہدے کے مستقبل کے خاکے کی وضاحت نہیں کی‘۔

بائیڈن نے حال ہی میں زیلنسکی کو یقین دلایا کہ ان کا نیا 10 سالہ دوطرفہ سیکیورٹی معاہدہ روسی صدر (ولادی میر پوٹن ) کے لیے ایک اور یاد دہانی ہے کہ ہم پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ بلکہ درحقیقت، ’ہم اس غیر قانونی جارحیت کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہیں۔‘

یہ سخت موقف صرف بائیڈن تک ہی محدود نہیں ہے: تجزیہ کار

یوکرین کے لیے امریکہ کے سابق سفیر جان ہربسٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا، ’ہم جانتے ہیں کہ ٹرمپ خود کو ایک مضبوط شخص سمجھتے ہیں اور وہ خارجہ پالیسی کی ناکامی سے منسلک ہونا نہیں چاہتے۔ اور اگر ٹرمپ صدر ہیں تو یوکرین میں روس کی فتح زیادہ تر خارجہ پالیسی میں ناکامی کی طرح نظر آئے گی۔

چین کے عزائم

بیجنگ کے سلسلے میں بائیڈن کی سوچ مقابلہ ہے نہ کہ تنازعہ۔ اور معیشت کے اس انتہائی اہم کھیل میں سیاسی تدبر واشنگٹن کا پسندیدہ ہتھیار ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں یہ محدود سوچ اس بات سے جڑی ہے کہ امریکیوں کی اکثریت مستقل طور پر معیشت کو اپنی اولین انتخابی ترجیح کے طور پر دیکھتی ہے۔

مئی میں، بائیڈن نے چینی الیکٹرک گاڑیوں، بیٹریوں، سولر سیلز، اسٹیل، ایلومینیم اور طبی آلات پر بھاری محصولات لگا کر ان خطرات کو اجاگر کیا جو ان کے خیال میں چین سے درپیش ہیں۔

بائیڈن کا کہنا ہے کہ، ’جب تک مقابلہ منصفانہ ہے تو امریکی کارکن کسی کے ساتھ بھی سخت مقابلہ کر سکتے ہیں اور جیت سکتے ہیں۔ لیکن طویل عرصے سے، یہ مقابلہ منصفانہ نہیں ہے۔ برسوں سے، چینی حکومت، چینی کمپنیوں میں سرکاری مالی اعانت فراہم کر رہی ہے۔ یہ مقابلہ نہیں ہے، دھوکہ دہی ہے۔‘

جب کہ ٹرمپ نے، جو خود محصولات لگانا پسند کرتے ہیں، حال ہی میں تمام اشیا پر محصولات اور چینی درآمدات پر 60 فی صد سے زیادہ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

چین کے بارے میں یونیورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر کانسٹیںٹن سونین کہتے ہیں کہ دونوں ہی شخصیات کا رویہ جارحانہ ہے۔ تجزیہ کار کے مطابق بائیڈن نے چین پر ٹرمپ انتظامیہ کے بہت سے سخت محصولات کو تبدیل نہیں کیا۔

انہوں نے ٹرمپ کے بارے میں کہا کہ ’آٹھ سال پہلے ایسا لگتا تھا کہ وہ بالکل مختلف قسم کے امریکی صدر ثابت ہوں گے۔ لیکن اصل میں، وہ مختلف نہیں تھے. اور بہت ساری چیزیں جو ٹرمپ نے کیں انہیں بائیڈن انتظامیہ نے جاری رکھا۔

امریکی انتخابات : صاف توانائی کا معاملہ کتنا اہم ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:01 0:00

سونین کہتے ہیں کہ ،’لیکن تائیوان کے معاملے پر، جہاں امریکہ ’اسٹرٹیجک ابہام‘ کی پالیسی عمل پیرا ہے، اور واشنگٹن اس جانب اشارہ کرنے سے انکار کرتا ہے کہ اگر بیجنگ تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو اس کا ردعمل کیا ہو گا، اس کا انداز مختلف ہوتا ہے، اس کا انحصار اس پر ہے کہ انچارج کون ہے‘۔

وہ کہتے ہیں کہ، ’میرے خیال میں یہ اب بھی بہت مختلف صدور ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر وہ تائیوان کے ارد گرد بڑھتا ہے، تو شاید ڈونلڈ ٹرمپ مختلف ردعمل ظاہر کریں گے۔‘

انہوں نے ٹرمپ کے سخت اقدامات کو نمایاں کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ پالیسی میں بعض اوقات وہ عمل سے زیادہ سخت دکھائی دیتے ہیں۔اور یہ چین کے حوالے سے بھی سچ ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ میکسکو کے حوالے سے چین کے متعلق بھی۔

مشرق وسطیٰ کی بے چینی

جب مشرق وسطیٰ کی بات آتی ہے تو ٹرمپ کا ابہام نمایاں طور پر واضح دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ بائیڈن نے خود کو کھلے عام اسرائیل کا سب سے مضبوط حامی قرار دیا ہے ۔ باوجودیکہ وہ عوامی طور پر دوسری جانب بڑھتے ہوئے اکثر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے برہم دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ اسرائیلی رہنما کے ساتھ ٹرمپ کے ذاتی تعلقات خطے کے بارے میں ان کے نظریے کو تشکیل دیتے ہیں۔

ٹرمپ نے ’ٹائم‘ کے ساتھ اپریل میں ایک تفصیلی انٹرویو میں نیتن یاہو کی عربی عرفیت استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ، ’ مجھے بی بی کے ساتھ ایک خراب تجربہ ہوا تھا۔ اور اس کا تعلق (امریکی حملے میں ایرانی فوجی عہدے دار قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے تھا۔کیونکہ جیسا کہ اب آپ جانتے ہیں کہ وہ اس حملے سے ذرا پہلے الگ ہو گئے تھے۔ میں اس سے خوش نہیں تھا۔ اور یہ ایک ایسی چیز ہے جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا۔

لیکن اس کے بعد مئی میں، جب بائیڈن نے یہ عزم ظاہر کیا کہ اگر اسرائیلی فورسز نے غزہ کے انتہائی گنجان آباد شہر رفح پر بڑا زمینی حملہ کیا تو وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہم روک دیں گے۔ تو ٹرمپ جوابی وار کیا۔

انہوں نے اپنے سوشل میڈیا ’ٹرتھ‘ پر ایک پوسٹ میں بائیڈن کے بارے میں لکھا کہ وہ ان دہشت گردوں کی طرف داری کر رہے ہیں جس طرح انہوں نے ہمارے کالجوں کے احاطوں پر قبضہ کرنے والے انتہاپسند ہجوموں کی طرف داری کی تھی۔

یہاں، ٹرمپ بیان بازی کی ایک مخصوص چال چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک مسئلے کا استعمال کرتے ہوئے — اس معاملے میں، وہ اسرائیل کو سامنے لانے کے لیے — ایک اہم لفظ — دہشت گردی— کا استعمال کرتے ہیں جو رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ووٹروں کی سب سے بٖڑی تشویش ہے۔ اور پھر اس معاملے کو ملک کے اندرونی مسائل سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جس میں وہ غزہ میں جنگ کے خلاف کالجوں کے کیمپسز میں مظاہروں کے لیے ایک ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو ووٹروں کے جذبات کو متاثر کر سکے۔

ایک امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر نے امریکیوں کے خیال میں خارجہ پالیسی کے اہم مسائل کے حوالے سے جس چیز کو بیان کیا ہے وہ خوف ہے۔ ٹرمپ ووٹروں کو متاثر کرنے کےلیے اسی چیز پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

پیو ریسرچ سینٹر نے امریکیوں کی اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے بارے میں تازہ ترین جائزے میں کہا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت دہشت گرد حملے روکنے (73 فی صد)، غیر قانونی منشیات کو ملک سے دور رکھنے (64 فی صد)، اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے(63 فی صد) کے حق میں ہے۔

لیکن پیو کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان ترجیحات کے باوجود زیادہ تر امریکیوں کے لیے خارجہ پالیسی ، اندرون ملک مسائل کے بعد آتی ہے۔

وائس آف امریکہ کی رپورٹ۔

فورم

XS
SM
MD
LG