زمین کی موجودہ حالت بظاہر ٹھیک نظر آنے والے ایک ایسے انسان جیسی ہے جسے اندر ہی اندر کئی مہلک بیماریاں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین کو لاحق امراض پر فوری قابو نہ پایا گیا تو یہ سیارہ انسان کے رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔
ماہرین زمین کی صحت کا تعین 9 کلیدی شعبوں کی جانچ پرکھ سے کرتے ہیں جن میں آب و ہوا، کرہ ارض پر موجود حیات کی اقسام، میٹھے پانی کی دستیابی، خوراک کی آلودگی، انسان کے تیار کردہ کیمیکلز کی مقدار، سمندرمیں تیزابیت کی سطح، ہوا میں کاربن کی مقدار ، کرہ فضائی میں اوزون کی تہہ اور زمین کی حالت شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 6 شعبوں میں صورت حال تشویش ناک ہے ، جب کہ دو میں حالت بگاڑ کی طرف جا رہی ہے۔ صرف ایک شعبہ ایسا ہے جہاں بتدریج بہتری آ رہی ہے اور وہ ہے کرہ فضائی میں اوزون کی تہہ ۔
زمین کی فضا میں لگ بھگ 15 سے 30 کلومیٹر بلندی پر اوزون گیس کی ایک موٹی تہہ موجود ہے، جو خلا سے آنے والی نقصان دہ الٹرا وائلٹ تابکاری کو زمین تک پہنچنے سے روکتی ہیں۔ اگر اوزون نہ ہو تو زمین پر انسان کی بقا مشکل بن سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زمین کے فضائی حصار میں اوزون کی تہہ سن 2066 تک مکمل طور پر بحال ہونے کی توقع ہے۔
جن دو شعبوں میں صورت حال بتدریج خراب ہو رہی ہے وہ سمندر میں تیزابیت کی سطح اور ہوا میں کاربن گیس کی مقدار ہے۔
جرمنی میں قائم آب و ہوا کے مطالعے سے متعلق ایک بین الاقوامی گروپ" پوٹس ڈیم انسٹی ٹیوٹ فار کلائمیٹ امپکٹ ریسرچ " کےڈائریکٹر جان راکسٹروم نے حال ہی میں جاری ہونے والی اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ صورت حال بہت خراب ہے۔ہماری تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ زمین کا مرض بڑھ رہا ہے۔
سن 2009 میں سائنس دانوں نے زمین کی صحت کی جانچ کے لیے 9 اہم شعبوں کا تعین کر کے سائنسی بنیادوں پر ان کے اعداد و شمار اکھٹے کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ 2015 کی تحقیق میں 9 میں 5 شعبوں کی صورت حال کو زمین کی صحت کے لیے تشویش ناک قرار دیا گیاتھا۔ جب کہ اب 13 ستمبر کی رپورٹ میں تشویش ناک شعبوں کی فہرست میں ایک اور شعبے کا اضافہ کر دیا گیا ہے جو پانی ہے۔راکسٹروم کہتے ہیں کہ پانی اب محفوظ شعبوں کی فہرست سے باہر نکل گیا ہے ۔
ہر آنے والے دن کے ساتھ زمین کو لاحق بیماریوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی علامتیں مختلف اشکال میں ہمارے سامنے آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر پہاڑوں کی چوٹیاں برف سے خالی ہو رہی ہیں۔ موسموں کی شدت بڑھ رہی ہے۔ کہیں طوفانی بارشیں اور سیلاب تباہیاں پھیلاتے ہوئے انسانی جانیں نگل رہے ہیں تو کہیں خشک سالی زندگی سے اس کی روح چھین رہی ہے۔
اسی طرح دریاؤں میں آلودگی بڑھ رہی ہے۔ جنگلات کی آگ معمول بنتی جا رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے زمین دہک کر تانبا ہونے کے دہانے تک پہنچ چکی ہے۔ ہوا میں مضر صحت گیسوں اور ذرات اور سمندروں میں زہر آلود کیمیکلز کی سطح اونچی ہوتی جا رہی ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ کرہ ارض کو لاحق مرض کی وہ علامتیں ہیں جو حیات اور نباتات کی تمام اقسام کا پنپنا ناممکن بنا دیں گی۔ اور جب یہاں زندگی ہی نہیں رہے گی تو یہ ایک مردہ سیارہ بن جائے گا۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دستیاب وقت تیزی سے گھٹ رہا ہے۔ اگر ہمیں زندہ رہنا ہے تو زمین کی صحت کے لیے تیزی سے کام کرنا ہو گا اور ہمیں ہر صورت زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکنا اور اسے 20 ویں صدی کی سطح پر واپس لانا ہو گا۔
زمین کی بیماری اور 20 ویں صدی میں صنعتی ترقی کی شروعات ایک ساتھ ہوئی ہیں۔ صنعتی ترقی ہی زمین کی صحت کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ انسان نے صنعت کا پہیہ چلانے کے لیے معدنی ایندھن جلانا شروع کیا اور اس سے نکلنے والی کاربن گیسیں زمین کی فضا کے قدرتی نظام میں خلل ڈالنے لگیں۔
اربوں برسوں سے یہ نظام کچھ اس طرح چل رہا تھا کہ سورج سے آنے والی حرارت کی لہریں زمین کو گرم کرتی تھیں اور رات کو زمین حرارت کو واپس خلا میں پلٹ دیتی تھی جس سے زمین کا درجہ حرارت قدرتی معمول پر رہتا تھا۔ لیکن کاربن گیسوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ حرارت کو واپس جانے سے روک دیتی ہیں۔ چنانچہ جیسے جیسے فضا میں کاربن گیسوں کی مقدار بڑھتی گئی، زمین کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اسے گلوبل وارمنگ کہتے ہیں جس کے اثرات کا ہم سب کچھ برسوں سے سامنا کر رہے ہیں۔
زمین کے اس بنیادی مرض کا علاج یہ ہے کہ کاربن گیسوں کا اخراج بند کیا جائے تاکہ بڑھے ہوئے درجہ حرارت کو رفتہ رفتہ اپنی قدرتی سطح پر واپس آنے کا موقع مل سکے۔
دنیا بھر کے سائنس دان اسی حل پر زور دے رہے ہیں۔ اسی موضوع پر عالمی کانفرنسیں ہو رہی ہیں۔ معدنی ایندھن کے متبادل ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ لیکن انسان نے دو صدیوں میں ترقی کا جو ڈھانچہ کھڑا کیا ہے، اسے شفاف اور ماحول دوست توانائی پر منتقل کرنے میں کثیر سرمایہ اور طویل وقت لگے گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ انسان کے پاس لا محدود وسائل اور زمین کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ اس لیے کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہو گا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ دنیا کاربن گیسوں کا اخراج گھٹانے کی کوشش کر رہی ہے، ہمیں زمین کی بیماری کی دوسری علامتوں کے ازالے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، جن میں ہوا اور پانی کی آلودگی پر قابو پانا، پلاسٹک اور پیٹرو کیمیکلز کا استعمال گھٹانا، اور جنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ شامل ہیں۔ اور ان شعبوں میں پیدا ہونے والی خرابیاں دور کرنے کی کوششوں کو ایک ساتھ آگے بڑھانا وقت کا اہم تقاضا بن چکا ہے۔