"پہلی مرتبہ پاکستان سے کوئی مس یونیورس مقابلے میں نمائندگی کے لیے جائے گا۔ میرے اوپر بہت بڑی ذمہ داری ہے اور یقیناً اس کا پریشر بھی۔ لیکن میں ایسا کچھ نہیں کروں گی جس سے ملک پر کوئی بات آئے۔"
یہ کہنا ہے 24 سالہ ایریکا رابن کا جو فیشن ماڈل ہیں اور مس یونیورس مقابلے کے لیے پاکستان سے منتخب ہوئی ہیں۔
دنیا بھر میں مقابلہ حسن ہونا ایک عام خبر ہے۔ لیکن گزشتہ روز سے پاکستان میں یہ خبر کافی خاص بن چکی ہے کیوں کہ عالمی مقابلہ حسن میں پہلی بار پاکستان سے کوئی خاتون شریک ہونے جا رہی ہیں جس پر تعریف اور تنقید دونوں جاری ہے۔
مس یونیورس کا ادارہ امریکہ اور تھائی لینڈ کی شراکت سے ہر سال مقابلہ کرواتا ہے جس کا ایک اندازے کے مطابق سالانہ بجٹ 10 کروڑ ڈالر ہے۔
اس ادارے کی بنیاد 28 جون 1952 میں رکھی گئی۔ ہر سال ہونے والے اس مقابلے میں دنیا بھر سے خواتین اپنی خوبصورتی، ذہانت، پیشہ وارانہ زندگی، سماجی کاموں کی بنیاد پر شریک ہوتی ہیں جس میں رنگ و نسل، زبان، مذہب اور کلچر کی کوئی قید نہیں ہے۔
گزشتہ برس مس یونیورس کا تاج امریکی خاتون آر بونی گیبرئیل نے پہنا تھا۔ پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت تین بار یہ اعزاز اپنے نام کر چکا ہے جس میں سن 1994 میں سشمیتا سین، 2000 میں لارا دتہ اور 2021 میں ہرناز کور سندھو مس یونیورس بن چکی ہیں۔
پاکستان سے کبھی بھی اس مقابلے میں شرکت نہیں کی گئی۔ تاہم مختلف ممالک میں ہونے والے مقابلوں میں پاکستانی نژاد خواتین نے مقامی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں شرکت ضرور کی ہے۔ لیکن ان چہروں سے لوگ اکثر ناواقف ہی رہے ہیں۔
البتہ اب یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستانی ماڈل ایریکا رابن اس عالمی مقابلے میں شریک ہو رہی ہیں۔
ایریکا رابن کہتی ہیں کہ 18 نومبر کو ایلسوا ڈور میں ہونے والے مقابلے جس میں 90 ممالک سے خواتین شریک ہو رہی ہیں اس میں ان کا جانا ہی کسی اعزاز سے کم نہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ مقابلہ جیتںے کی خواہش سے زیادہ اس بات پر خوش ہیں کہ جب اس پلیٹ فارم پر ان کا تعارف یہ کہہ کر کروایا جائے گا کہ اُن کا تعلق پاکستان سے ہے۔
چوبیس سالہ ایریکا کو فیشن ماڈلنگ میں دو برس ہوئے ہیں۔ ان کا تعلق ایک مسیحی خاندان سے ہے۔ وہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہیں جو اس شعبے میں آئی ہیں۔
ایریکا کے مطابق وہ ایک دفتر میں کام کرنے والی عام سی لڑکی تھیں۔ انہیں ایک ٹریننگ کے دوران پاکستانی ماڈل اور اداکارہ ونیزہ احمد سے ملنے کا موقع ملا جنہوں نے انہیں دیکھ کر کہا کہ آپ کو ماڈلنگ کرنی چاہیے جب کہ انہیں ایسا لگتا تھا کہ ایسا ناممکن ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ونیزہ کی حوصلہ افزائی کے بعد میں نے اس انڈسٹری میں قدم رکھا۔ ایریکا کے والد ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں اور والدہ ہاؤس وائف ہیں جو اس وقت اپنی بیٹی کی کامیابی پر بہت خوش ہیں۔
اس مقابلے میں شرکت کیسے ممکن ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں ایریکا کا کہنا تھا کہ کچھ ماہ قبل دبئی میں مقیم ایک پیجنٹ کمپنی (مقابلہ حسن کے لیے تیار کروانے والے) یوگون گروپ نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ ڈالی کہ انہیں پاکستان سے مس یونیورس مقابلے کے لیے درخواستیں مطلوب ہیں۔
ان کے بقول اس پوسٹ کے بعد مقامی پیجنٹ کمپنیوں نے ہمیں کہا کہ ہم اس میں اپلائی کر دیں۔ انہوں نے بتایا کہ "200 درخواستوں میں سے پہلے 15 کا انتخاب ہوا پھر دیگر مقابلوں کے بعد پانچ خواتین کو فائنل کیا گیا جن میں میرا نام بھی شامل تھا۔"
ایریکا نے بتایا کہ ہم پانچ خواتین کو مالدیپ میں مختلف مقابلوں میں پیش کیا گیا جس کے بعد فائنل انتخاب ان کا ہوا۔
پاکستانی ماڈل اور اداکارہ ونیزہ احمد کا کہنا ہے کہ اگر ایسے مقابلے میں پاکستان کی کوئی نمائندگی کر رہا ہے خاص کر وہ جس کا تعلق اقلیت سے ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں ذاتی طور پر بہت خوشی ہوئی ہے کہ ایریکا اس مقابلے کے لیے منتخب ہوئی ہیں۔ وہ ایک محنتی اور باصلاحیت ماڈل ہیں۔ ہمارے یہاں ہر کام پر تنقید کا پہلو نکال لیا جاتا ہے۔ تنقید اور اعتراض کرنا ہماری عادت اور معاشرتی رویہ بن چکا ہے۔
ونیزہ کا کہنا تھا کہ تنقید کرنے والے زیادہ تر مرد ہیں جو اس وقت تو تنقید نہیں کرتے جب مردوں کے انٹرنیشنل مقابلے ہوتے ہیں اور مرد مسٹر پاکستان کا ٹائٹل جیت کر آتے ہیں۔ لیکن سارے مسائل خواتین سے ہی کیوں جوڑ دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کافی عرصے سے انہوں نے مقابلہ حسن نہیں دیکھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اب ان مقابلوں کے طریقہ کار بھی ضرور تبدیل ہوئے ہوں گے۔
ونیزہ احمد کے بقول "اب ایسا نہیں ہے کہ خواتین کو صرف آبجیکٹ کے طور پر پیش کیا جائے۔ دنیا بھر میں خوب صورتی کو سراہا جاتا ہے، ایک ماڈل کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ ہر لحاظ سے بہتر اور پریزنٹیبل ہو تو پھر کیوں اسے نہ سراہا جائے۔"
کیا ایسے مقابلوں کی آفرز پہلے بھی آتی رہی ہیں؟ اس سوال پر ونیزہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ جب وہ ماڈلنگ سے وابستہ تھیں تو ان سے بھی ایک غیر ملکی کمپنی نے رابطہ کیا تھا۔ اس دور میں سوشل میڈیا، انٹر نیٹ کی رسائی اتنی عام نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے اس کمپنی کے اراکین سے ملاقات بھی نہیں کی، یہ سوچ کر کہ ہمیں ایسے کسی مقابلے کا کہہ کر انسانی اسمگلنگ میں نہ پھنسا دیا جائے۔
ان کے بقول انہیں زیادہ معلومات نہیں تھیں نہ ہی وہ اس کی تصدیق کرسکتی تھیں لہٰذا انہوں نے اس بارے میں سوچا ہی نہیں۔ لیکن ایسی آفر یقیناً دیگر ماڈلز کو بھی آئی ہوں گی۔
دوسری جانب جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس'(سابقہ ٹوئٹر) پر پاکستانی خاتون کے منتخب ہونے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مقابلے میں شرکت پاکستان کی توہین اور خواتین کا استحصال ہے۔
ان کے بقول وہ اس مقابلے کے پاکستان میں موجود منتظمین کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ اس معاملے پر حکومت کی پوزیشن واضح کریں۔
'پاکستانی ماڈل سرکاری سطح پر ملک کی نمائندگی نہیں کریں گی'
اس معاملے پر نگراں وزیر برائے قومی ورثہ و ثقافت جمال شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرکاری سطح پر نہ تو ہم سے اس مقابلے میں شرکت کے لیے کوئی اجازت مانگی گئی نہ ہی ہم نے اجازت دی۔
ان کے بقول جو خواتین اس میں شریک ہو رہی ہیں یہ ان کی ذاتی کاوشیں ہیں۔ پاکستان اب بھی ایک قدامت پسند ملک ہے تو ایسے مقابلوں میں شرکت کی اجازت دینا ناممکن ہی ہے۔ لیکن ہماری جانب سے اس پر کوئی ردِعمل نہیں دیا گیا۔
مقابلے میں پاکستانی ماڈل کی شرکت پر ہونے والی تنقید پر انہوں نے واضح کیا کہ جو بھی خاتون اس پلیٹ فارم پر جائیں گی وہ سرکاری سطح پر پاکستان کی نمائندگی نہیں کر رہی ہوں گی۔لیکن حکومت کی جانب سے شرکت کرنے والی خاتون کونہ تو روکا جائے گا نہ ہی ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہے۔
ایریکا روبن نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مقابلے میں شرکت کے لیے پاکستانی حکومت کی جانب سے کوئی سہولت نہیں دی گئی نہ ہی وہ سرکاری سطح پر نمائندگی کر رہی ہیں۔
ان کے بقول اگر ایسا ہوتا تو غیر ملکی کمپنی کے ذریعے ہمارا انتخاب نہ ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں مثبت ردِعمل ہو وہاں منفی بھی ہوتا ہے۔ جو لوگ اس پر تنقید کر رہے ہیں ان کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان کو غلط انداز سے پروموٹ نہ کیا جائے۔ ماضی میں ایسے مقابلوں میں خواتین شرکا کو سوئیم سوٹ (بکینی) پہننی پڑی تھی لیکن ان سمیت کچھ ماڈلز یہ نہیں پہنیں گی۔ یہ کوئی لازمی شرط نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ چوں کہ اسلامی ملک کی نمائندگی کر رہی ہیں تو وہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے ملک پر کوئی حرف آئے۔
ان کے بقول وہ اپنے ملک سے متعلق کوئی اصول نہیں توڑیں گی۔ جب یہ مقابلہ ہو جائے گا تو بہت سے لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی جو پہلے سے اس مقابلےکے سلسلے میں ان کے ذہنوں میں راسخ ہو چکی ہیں۔
ایریکا روبن کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر بہت خوش ہیں کہ اب ہر سال پاکستان سے کوئی نہ کوئی اس مقابلے میں شریک ہو گا۔ دیگر ممالک میں اس مقابلے کے لیے خواتین کو برسوں تیار کرایا جاتا ہے۔ پاکستان میں چوں کہ ایسا پہلی بار ہونے جا رہا ہے تو دبئی کی ٹیم ان کی ٹریننگ کرو ا رہی ہے کہ انہیں اس مقابلے میں خود کو کیسے پیش کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی ان کے لیے باعثِ فخر ہے کہ اس مقابلے کے لیے انہیں چنا گیا ہے۔
فورم