پاکستان کی حکومت نے ملک میں کرونا وائرس کے کیسز کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث مخصوص شہروں میں ایک مرتبہ پھر تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جب کہ ملک بھر میں کئی پابندیاں دوبارہ نافذ کی گئی ہیں۔
اسلام آباد میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے اجلاس کے بعد وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں کرونا وائرس کے کیسز کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث صحت کے نظام پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔
ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا کہ پاکستان بھر میں شام چھ بجے تفریحی پارک بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ شادیوں اور دیگر ان ڈور تقریبات سمیت مزاروں کو کھولنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔ اِسی طرح سنیما گھروں کو 15 مارچ 2021 سے کھولنے کا فیصلہ بھی واپس لیا گیا ہے۔ جب کہ ہوٹلوں کے اندر کھانے پر بھی پابندی عائد ہو گی۔
ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ اسلام آباد میں دفاتر میں 50 فی صد عملے کی حاضری کے فیصلے پر بھی عمل درآمد جاری رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتیں وبا کے پھیلاؤ کے تناسب سے اسمارٹ لاک ڈاؤن لگاتی رہیں گی۔ تمام فیصلوں پر 12 اپریل کو نظرِ ثانی کی جائے گی۔
ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ملک بھر میں ماسک پہننے کے فیصلے پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے گا۔ پاکستان بھر میں تمام تجارتی سرگرمیاں رات 10 بجے ختم کر دی جائیں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
کئی شہروں میں تعلیمی اداروں کی بندش کا اعلان
پریس کانفرنس میں ڈاکٹر فیصل سلطان کے ہمراہ موجود وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ پاکستان بھر میں پانچ کروڑ بچے تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں اور یہ ایسا شعبہ ہے جس پر بیماری کا براہِ راست اثر پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں حالات بہتر ہیں۔ وہاں کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ 50 فی صد حاضری کے ساتھ طلبہ روز تعلیمی اداروں میں آئیں گے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور کشمیر میں کچھ مسائل نظر آئے ہیں۔ اس لیے ملتان، لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ،گجرات، سیالکوٹ، اسلام آباد اور راولپنڈی میں پیر 15 مارچ سے تمام تعلیمی ادارے دو ہفتوں کے لیے بند کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے ان تعطیلات کو بہار کی چھٹیاں قرار دیا۔
شفقت محمود نے بتایا کہ کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے لیے بھی یہی فیصلہ متوقع ہے جب کہ خیبرپختونخوا میں اس فیصلے کا اطلاق صرف پشاور کے لیے ہو گا۔
وفاقی وزیر برائے تعلیم نے کہا کہ جن اداروں میں امتحانات ہو رہے ہیں وہ جاری رہیں گے۔ لیکن صوبائی حکومتیں ان معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیتی رہیں گی۔ جہاں ضرورت محسوس ہوئی کہ حالات خراب ہو رہے ہیں وہاں تعلیمی ادارے بند کیے جا سکتے ہیں۔
مخصوص شہروں میں تعلیمی ادارے بند کیے جانے پر والدین کی تنظیم کے لاہور سے ایک رکن محبوب عالم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اسکول بند نہیں کرنے چاہئیں۔ بلکہ کم تعداد کے ساتھ مختلف شفٹوں میں تعلیمی اداروں کو چلانا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محبوب عالم نے کہا کہ حکومت کا فیصلہ غلط ہے اِس سے بچوں کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے اور دوسری جانب اسکولوں والے فیسیں بدستور لیتے رہتے ہیں۔
تنظیم کے ایک اور رکن خالد محمود نے حکومت کے فیصلے کو سراہا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خالد محمود نے کہا کہ حکومت نے حقائق اور اعداد و شمار سامنے رکھ کر ہی اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہو گا۔
ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد کی ویکسی نیشن شروع
دوسری جانب ملک بھر میں 60 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کو کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگانے کے عمل کا آغاز ہو گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر پنجاب کے سیکریٹری محمد عثمان یونس کے مطابق صوبے بھر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر 104 ویکسی نیشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔
ان کے بقول 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو کرونا اور دیگر بیماروں سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کے لیے اسپتالوں کے بجائے الگ ویکسی نیشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔
محمد عثمان یونس کا کہنا تھا کہ صوبے بھر میں اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد بزرگ شہری کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لگائی جانے والی ویکسین کے لیے رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔
اِسی طرح محکمۂ صحت سندھ کے مطابق 60 سال سے زائد عمر کے رجسٹرڈ شہریوں کو ویکسین لگانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے جس کے لیے شہریوں کو بذریعہ فون پیغامات بھیجے جا رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے محکمۂ صحت کے مطابق صوبے بھر کے اسپتالوں میں 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگانے کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ترجمان محکمۂ صحت کے مطابق صوبے بھر میں چار ہزار سے زیادہ بزرگ شہریوں نے کرونا ویکسی نیشن کے لیے خود کو رجسٹرڈ کرایا ہے۔
یاد رہے پاکستان نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پہلے مرحلے میں طبی عملے اور ڈاکٹرز کو ویکسین لگائی گئی تھی۔ جو چین نے بطور تحفہ پاکستان کو دی تھی۔