سندھ کے علاقے کندھ کوٹ میں جمعرات کو مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ایک یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کو قتل کر دیا ہے۔ مقتول اجمل ساوند فرانس کی ایک جامعہ سے ای ہیلتھ مانیٹرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سکھر میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں پڑھا رہے تھے۔
اجمل ساوند آئی بی اے سے قبل فرانس میں بھی تدریس سے وابستہ رہے۔ ڈاکٹر ساوند نے مہران یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹینکالوجی سے سافٹ وئیر انجینئرنگ میں گریجویشن کی تھی۔
اجمل ساوند گندم کی کٹائی کے باعث اپنے آبائی علاقے میں مقیم تھے۔ ایس ایس پی کشمور عرفان سموں کے مطابق انہیں جمعرات کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ کندھ کوٹ میں اپنی زمینوں سے اپنے آبائی گھر کی طرف جا رہے تھے۔
ایس ایس پی کے مطابق اس قتل کے پیچھے قبائلی دشمنی حائل ہے جس کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ پولیس نے قتل کے بعد کارروائی کرتے ہوئے مخالف قبیلے کے کچھ گھر مسمار کر دیے جب کہ فصل کو بھی آگ لگا دی۔ تاہم اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ساوند اور سندرانی قبیلے کے درمیان دشمنی کئی برس پرانی ہے جس کی ابتدا غیرت کے نام پر ہونے والے ایک قتل سے ہوئی تھی۔ تقریباً دس سال گزرنے کے بعد بھی یہ دشمنی برقرار ہے جس میں اب تک کم از کم پانچ افراد قتل ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل ساوند قبیلے کی سبزوئی قبیلے کے ساتھ بھی دشمنی رہ چکی ہے۔
پروفیسر اجمل ساوند کو بے دردی سے قتل کرنے کے بعد مخالفین نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی جاری کی جس میں وہ ان کے قتل کا جشن منا رہے تھے۔
سندھ مدرسۃ الاسلام کے سابق وائس چانسلر اور ڈاکٹر اجمل ساوند کے قریبی دوست ڈاکٹر محمد علی شیخ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اجمل ایک ہونہار نوجوان تھے جو قبائلی تنازعات کا شکار ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ گزشتہ دو صدیوں سے قبائلی جاگیردارانہ نظام کی بدترین زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ حکومتیں آئیں اور چلی گیئں لیکن صوبے میں قبائلی تنازعے ختم نہ ہو سکے کیوں کہ ان لوگوں کو سیاسی آشیرباد بھی حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کراچی: آنکھوں کا نور بانٹنے والے مسیحا ڈاکٹر بیربل گینانی کا قتلکندھ کوٹ میں مقیم صحافی حسن علی بنگوار کے مطابق گھوٹکی، کشمور، شکارپور، کندھ کوٹ اور صوبے کے دیگر شمالی اضلاع میں قبائلی تنازعات اور دشمنیاں عرصے سے جاری ہیں۔ لیکن سیلاب کے بعد یہاں جرائم میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دریائی پٹی، جو دور دراز اور دشوار گزار علاقوں پر مشتمل ہے، جرائم پیشہ افراد کی آماج گاہ ہے۔
صحافی حسن علی کا کہنا تھا کہ یہاں تاوان کے لیے لوگوں کو یرغمال بنا کر رکھا جاتا ہے اور پھر ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کر کے ان کے اہلِ خانہ سے تاوان طلب کیا جاتا ہے جب کہ پولیس کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے۔
واضح رہے کہ اس علاقے میں پولیس کی جانب سے متعدد بار آپریشن کی بھی کوشش کی جا چکی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہر بار شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ ماہ نو مارچ کو صوبائی کابینہ میں تفصیلی مشاورت کے بعد صوبے کے کچے کے علاقوں سے ڈاکوؤں کا صفایا کرنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت ایک اور آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس میں پنجاب اور بلوچستان کی پولیس، رینجرز اور فوج کے اہلکار بھی حصہ لیں گے۔ کابینہ نے ان علاقوں میں ریاست کی عمل داری ممکن بنانے کے لیے جدید ترین ملٹری گریڈ فیلڈ اور نگرانی کے آلات کی خریداری کے لیے دو ارب 79 کروڑ روپے کی بھی منظوری دی تھی۔
آئی جی سندھ پولیس نے کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومتی فیصلے کے مطابق سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے کچے کے علاقے میں مشترکہ آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے لیے جدید ترین ہتھیاروں اور نگرانی کے آلات کی خریداری کی جائے گی۔
آئی جی نے کابینہ کو بتایا تھا کہ کشمور، شکارپور اور گھوٹکی کے کچے کے علاقوں میں موجود سرگرم عادی مجرموں اور گینگز کو کنٹرول کرنے کے لیے ہتھیاروں اور نگرانی کے آلات کی سخت ضرورت ہے۔