مصر کے کئی شہروں میں بدھ کو مسلسل دوسرے روز بھی حکومت مخالف مظاہرے جاری رہے جن کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد تین ہوگئی ہے۔
بدھ کے روز سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ دارلحکومت قاہرہ میں ہوا جس میں شریک ہزاروں افراد اورپولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور کئی سو افراد کو گرفتار کرلیا۔
برادر عرب ملک تیونس کے عوامی انقلاب کے زیرِ اثر ہونے والے حالیہ مظاہروں کا سلسلہ مصر کے کئی شہروں میں پھیل گیا ہے۔ مظاہرین صدر حسنی مبارک کے استعفیٰ اور ملک میں معاشی اور سیاسی اصلاحات متعارف کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
حالیہ مظاہروں کو گزشتہ 30 سال سےبرسرِ اقتدار مصری صدر حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف اب تک کا سب سے بڑا، شدید اور منظم احتجاج قراردیا جارہا ہے۔ حسنی مبارک 1981 میں اس وقت کے صدر انوارالسادات کے قتل کے بعد سے مسلسل اقتدار پر فائز ہیں۔
ملک بھر میں جاری حالیہ مظاہروں کے دوران اب تک تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جاچکی ہے جن میں سے دو افراد پولیس تشدد سے ساحلی شہرسوئز جبکہ ایک پولیس اہلکار مظاہرین سےجھڑپوں کے دوران قاہرہ میں ہلاک ہوا۔
بدھ کے روز قاہرہ کے ‘تحریر اسکوائر' پہ ہزاروں نوجوان کئی گھنٹے مظاہرہ کرتے رہے۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش پر مظاہرین مشتعل ہوگئےاور انہوں نے پولیس پر پتھرائو کیا اور صدر حسنی مبارک کی کئی تصاویر کو آگ لگادی۔ اس موقع پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا، آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔
اسکندریہ، منصورہ اور محلہ الکبریٰ سمیت مصر کے کئی دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی ہزاروں افراد نے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔
مظاہروں کا اعلان حزبِ مخالف کی جماعتوں کے اتحاد "کفایہ موومنٹ" اور مصری نوجوانوں کی مقامی تنظیموں کی جانب سے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس "فیس بک" اور "ٹوئٹر" پہ کیا گیا تھا۔
مظاہروں کا اہتمام کرنے والی تنظیموں نے اپنے پیغامات میں کہا ہے کہ مصری نوجوان بھی تیونس کے عوامی انقلاب کو جنم دینے والے عوامل، بشمول غربت اور حکومتی جبر، کا شکار ہیں اور ان کی جانب سے یہ مظاہرے ان نوجوانوں کے غصے کا اظہار کرنے کیلیے منعقد کیے جارہے ہیں۔
مغربی میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق مصر میں "ٹوئٹر" ویب سائٹ کو منگل کی شب بلاک کردیا گیا ہے جس تک رسائی تاحال بحال نہیں ہوسکی ہے۔
مصر کی آٹھ کروڑ سے زائد آبادی کا تقریباً نصف حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے۔ بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور سیاسی پابندیوں کے باعث اکثر مصری باشندے تشویش کا شکار ہیں اور معاشرے میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
منگل کے روز ہونے والے مظاہرے ابتدائی طور پر پر امن رہے تھے اور حکومت کی جانب سے مظاہرین سے "سختی کے ساتھ نبٹنے" کی دھمکیوں کے باوجود بیشتر مقامات پر سیکیورٹی اہلکاروں نے مظاہروں میں مداخلت سے گریز کیا تھا۔ تاہم عینی شاہدین کے مطابق مظاہرے اس وقت پرتشدد ہوگئے جب قاہرہ میں مظاہرین نے خود کو منتشر کرنے کیلیے طلب کیے گئے واٹر کینن ٹرک پر قبضہ کی کوشش کی۔
حزبِ مخالف کی بڑی جماعتوں، بشمول لبرل "وفد" پارٹی اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی مصر کی سب سے بڑی اور منظم اپوزیشن جماعت "اخوان المسلمین" کی جانب سے حالیہ مظاہروں کی حمایت کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم ان جماعتوں کے کئی رہنما اور ارکان گزشتہ روز ہونے والے مظاہروں میں شریک ہوئے۔
مصر میں 1981ءسےنافذ ایمرجنسی قوانین کے تحت ملک میں پیشگی اجازت کے بغیر مظاہروں پر پابندی عائد ہے۔ تاہم حکومت مخالف گروپوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکام کی جانب سے اس مقصد کیلیے اجازت نامے نہیں دیے گئے۔
مصر میں ہونے والے حالیہ مظاہرے عرب دنیا کے ایک اور ملک تیونس میں آنے والے عوامی انقلاب کے پسِ منظر میں کیے جارہے ہیں جہاں چلنے والی عوامی تحریک اور شورش کے باعث ملک پر 23 سال سے برسرِ اقتدار زین العابدین بن علی کو رواں ماہ صدارت کا عہدہ چھوڑ کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
"پرامن" رہنے کی امریکی اپیل
دریں اثناء وہائٹ ہائوس نے مصر کی تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد سے گریز کا راستہ اپناتے ہوئے پر امن رہیں ۔ وہائٹ ہائوس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حالیہ مظاہروں نے مصری حکومت کو ملک میں ایسی سیاسی ، معاشی اور معاشرتی اصلاحات متعارف کرانے کا ایک موقع فراہم کیا ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔
امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی منگل کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ " اظہارِ رائے اور اجتماع کی آزادی" کے بنیادی حقوق کی حمایت کرتا ہے تاہم مصری باشندوں کو تشدد سے باز رہنا چاہیے۔