اخوان المسلمون نے ملک بھر میں جاری مظاہروں کو نمازِ عشا کے بعد ختم کرنے اور ہفتے سے روزانہ مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جمعے کو ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 70 بتائی جاتی ہے
واشنگٹن —
مصر کے مختلف شہروں میں معزول صدر محمد مرسی کی حمایت میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے درجنوں افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔
وزارت صحت سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز ہونے والی جھڑپوں کے دوران کم از کم 70 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر افراد قاہرہ کے ایمسز اسکوائر کے اِرد گرد کی جانے والی کارروائی کے دوران فوت ہوئے۔ کچھ اخباری رپورٹوں میں ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ بتائی گئی ہے، جب کہ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے درجنوں لاشیں مسجدوں میں پڑی ہوئی دیکھی ہیں، جہاں لاشیں لائی اور اٹھائی جاتی ہیں۔
معزول صدر کی جماعت 'اخوان المسلمون' کی اپیل پر مصر کے مختلف شہروں میں نمازِ جمعہ کے بعد لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے ساتھی مظاہرین کے خلاف بدھ کو ہونے والی ہلاکت خیز فوجی کاروائی پر احتجاج کیا۔
خیال رہے کہ دارالحکومت قاہرہ کے دو مقامات پر گزشتہ پانچ ہفتوں سے جاری احتجاجی دھرنوں میں شریک ہزاروں افراد پر مصر کی فوج اور پولیس نے بدھ کی صبح دھاوا بول دیا تھا۔
فوجی کاروائی میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ اخوان کے رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
اخوان نے بدھ کی فوجی کاروائی کے خلاف جمعے کو ملک بھر میں 'یومِ غضب' منانے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں مصر کی عبوری حکومت نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال اور انہیں براہِ راست فائرنگ کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔
قاہرہ میں موجود 'وائس آف امریکہ' کے نامہ نگار کے مطابق فوجی دستوں نے شہر کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں کھڑی کرکے بند کر دیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق قاہرہ کے کئی مقامات پر مظاہرین اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہیں جب کہ ملک کے کئی اور شہروں اور قصبات میں بھی پولیس اہلکاروں نے حکومت مخالف جلوسوں پر فائرنگ کی ہے۔
'رائٹرز' نے عینی شاہدین کے حوالے سے کہا ہے کہ پولیس اور فوج کی فائرنگ سے صرف دارالحکومت قاہرہ میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
قاہرہ میں احتجاجی مظاہروں کے مرکز 'رمسیس اسکوائر' پر جمع ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے آنسو گیس کی زبردست شیلنگ کی گئی۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس کی فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہونے والے مظاہرین کو چوک کے نزدیک واقع ایک مسجد منتقل کیا جارہا ہے جہاں 'اخوان المسلمون' کے کارکنوں نے عارضی طبی مرکزقائم کر رکھا ہے۔
'رمسیس اسکوائر' پر سکیورٹی اہلکاروں کی شدید فائرنگ کے بعد فوجی بغاوت کی مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے اپنے کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ چوک سے پیچھے ہٹ جائیں تاکہ مزید ہلاکتوں سے بچا جاسکے۔
اتحاد نے اپنے ایک بیان میں ملک بھر میں جاری مظاہروں کو نمازِ عشاء کے بعد ختم کرنے اور ہفتے سے روزانہ مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
رائٹرز' نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مصر کے شمالی شہروں اور قصبات میں صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے جہاں محمد مرسی کے حامیوں کے جلوسوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے 30 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
ساحلی قصبے دمیتہ میں آٹھ، قاہرہ کے نواحی قصبے فیوم میں پانچ، اسماعیلیہ میں چار اور دریائے نیل کے کنارے واقع شہر طنطا مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں جب کہ مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ اور میں بھی پرتشدد جھڑپیں ہوئی ہیں۔
ایک سکیورٹی افسر نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعرات کی شب سے جمعے کی شام تک مصر میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے دوران میں 24 پولیس اہلکار مارے گئے ہیں جب کہ 15 پولیس اسٹیشن مشتعل مظاہرین کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
وزارت صحت سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز ہونے والی جھڑپوں کے دوران کم از کم 70 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر افراد قاہرہ کے ایمسز اسکوائر کے اِرد گرد کی جانے والی کارروائی کے دوران فوت ہوئے۔ کچھ اخباری رپورٹوں میں ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ بتائی گئی ہے، جب کہ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے درجنوں لاشیں مسجدوں میں پڑی ہوئی دیکھی ہیں، جہاں لاشیں لائی اور اٹھائی جاتی ہیں۔
معزول صدر کی جماعت 'اخوان المسلمون' کی اپیل پر مصر کے مختلف شہروں میں نمازِ جمعہ کے بعد لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے ساتھی مظاہرین کے خلاف بدھ کو ہونے والی ہلاکت خیز فوجی کاروائی پر احتجاج کیا۔
خیال رہے کہ دارالحکومت قاہرہ کے دو مقامات پر گزشتہ پانچ ہفتوں سے جاری احتجاجی دھرنوں میں شریک ہزاروں افراد پر مصر کی فوج اور پولیس نے بدھ کی صبح دھاوا بول دیا تھا۔
فوجی کاروائی میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ اخوان کے رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
اخوان نے بدھ کی فوجی کاروائی کے خلاف جمعے کو ملک بھر میں 'یومِ غضب' منانے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں مصر کی عبوری حکومت نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال اور انہیں براہِ راست فائرنگ کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔
قاہرہ میں موجود 'وائس آف امریکہ' کے نامہ نگار کے مطابق فوجی دستوں نے شہر کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں کھڑی کرکے بند کر دیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق قاہرہ کے کئی مقامات پر مظاہرین اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہیں جب کہ ملک کے کئی اور شہروں اور قصبات میں بھی پولیس اہلکاروں نے حکومت مخالف جلوسوں پر فائرنگ کی ہے۔
'رائٹرز' نے عینی شاہدین کے حوالے سے کہا ہے کہ پولیس اور فوج کی فائرنگ سے صرف دارالحکومت قاہرہ میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
قاہرہ میں احتجاجی مظاہروں کے مرکز 'رمسیس اسکوائر' پر جمع ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے آنسو گیس کی زبردست شیلنگ کی گئی۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس کی فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہونے والے مظاہرین کو چوک کے نزدیک واقع ایک مسجد منتقل کیا جارہا ہے جہاں 'اخوان المسلمون' کے کارکنوں نے عارضی طبی مرکزقائم کر رکھا ہے۔
'رمسیس اسکوائر' پر سکیورٹی اہلکاروں کی شدید فائرنگ کے بعد فوجی بغاوت کی مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے اپنے کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ چوک سے پیچھے ہٹ جائیں تاکہ مزید ہلاکتوں سے بچا جاسکے۔
اتحاد نے اپنے ایک بیان میں ملک بھر میں جاری مظاہروں کو نمازِ عشاء کے بعد ختم کرنے اور ہفتے سے روزانہ مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
رائٹرز' نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مصر کے شمالی شہروں اور قصبات میں صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے جہاں محمد مرسی کے حامیوں کے جلوسوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے 30 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
ساحلی قصبے دمیتہ میں آٹھ، قاہرہ کے نواحی قصبے فیوم میں پانچ، اسماعیلیہ میں چار اور دریائے نیل کے کنارے واقع شہر طنطا مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں جب کہ مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ اور میں بھی پرتشدد جھڑپیں ہوئی ہیں۔
ایک سکیورٹی افسر نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعرات کی شب سے جمعے کی شام تک مصر میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے دوران میں 24 پولیس اہلکار مارے گئے ہیں جب کہ 15 پولیس اسٹیشن مشتعل مظاہرین کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔