مصر کی سڑکوں پر صدر حسنی مبارک کے خلاف بڑے پیمانے پر جاری مظاہروں نے ملکی معیشت پر فوری اثرانداز ہونے کےساتھ ساتھ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو بھی فکر میں مبتلا کردیا ہے۔
ہفتے کے روز کئی ٹریول ایجنسیوں نے مصر کے لیے اپنے مسافروں کی روانگیاں مؤخر کردیں جہاں کی معیشت کے پانچ فی صد کا انحصار سیاحت پر ہے۔ مزید برآں بہت سی حکومتوں نے،جن میں امریکہ، جاپان اور کئی دوسرے یورپی ممالک شامل ہیں، دارالحکومت قاہرہ اور کئی دوسرے علاقوں کی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر اپنے شہریوں کو وہاں نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔
قاہرہ کے ایئرپورٹ پربیرون ملک جانے والی پروازیوں میں نشستوں کے خواہش مند سینکڑوں افراد کا ہجوم دیکھا گیا، جب کہ کئی مغربی فضائی کمپنیوں نے مصر کے لیے اپنی بہت سی پروازیں منسوخ کردی ہیں۔ قاہرہ جانے والے ایک برطانوی ایئر لائن کا طیارہ راستے ہی سے واپس لندن لوٹ گیا۔
سعودی عرب کے اسٹاک ایکس چینج میں ہفتے کے روز کے سودوں میں انڈیکس 6.4 فی صد گر گیا جو مئی کے بعد سے سب سے زیادہ کمی تھی۔
مصر کی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر سرمایہ کاروں کی جانب سے حصص کی فروخت سے ایک کے سوا تمام 146 حصص کی قیمتیں گرگئیں۔
ایشیاء، یورپ اور امریکہ کی زیادہ تر اسٹاک مارکیٹوں میں جمعے کے روزبڑے پیمانے پر فروخت سے سعودی حصص کی قیمتیں گر گئیں۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ اس کی بنیادی وجہ مصر کی بے چینی ہے۔
کئی مالیاتی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ یہ تو معلوم نہیں ہے کہ مصر کے احتجاجی مظاہروں کے معیشت پر کتنے گہرے اثرات پڑیں گے ، لیکن وہ ملک کی تیل، گیس اور ٹیلی مواصلات کے صعنتوں کو بہت زیادہ متاثر کرسکتے ہیں۔
جمعے کے روز مصری حکومت نے ملک بھر میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سروسز بند کردیں تھیں، تاہم دوموبائل کمپنیوں نے ہفتے کے روز اپنی سروس دوبارہ شروع کردی۔
نہر سویز کا کنٹرول مصر کے پاس ہے اور اس نظام میں خلل کی صورت میں اس راستے سے دنیا بھر کو سامان اور تیل کی فراہمی متاثر ہوسکتی ہے۔ نہر سویز سے سالانہ 35 ہزار بحری جہاز گذرتے ہیں جن میں 2700 خام تیل لے جانے والے ٹینکر ہوتے ہیں۔