اطلاعات کے مطابق مصر میں ہفتہ کی صبح فوج سڑکوں پر گشت کر رہی ہے اور جمعہ کو ملک میں ہونے والے پرتشدد حکومت مخالف مظاہروں کے بعد صورت حال بظاہر پرسکون ہے۔
صدر حُسنی مبارک نے جمعہ کی شب قوم سے خطاب میں کابینہ کو برطرف کرتے ہوئے، نئی کابینہ تشکیل دینے اور اقتصادی و سیاسی اصلاحات کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ لیکن مظاہروں کو روکنے کے لیے قاہرہ سمیت شہروں میں فوج اور ٹینکوں کی تعیناتی کا حکم دے کر ایک سخت پیغام بھی دیا ہے کہ وہ اپنے 30 سالہ اقتدار سے الگ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
انھوں نے کہا کہ انھیں معلوم ہو چکا ہے کہ عوام اصلاحات پر پیش رفت چاہتی ہے لیکن اس کے لیے تشدد کا راستہ اپنانا ہرگز درست اقدام نہیں اور نا ہی حکومت کے لیے یہ قابل برداشت ہوگا۔ تاہم اس کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر موجود رہے کیونکہ ان کا موقف ہے کہ انھیں شکایت حکومت سے نہیں خود حسنی مبار ک سے ہے اور پہلے بھی اصلاحات کے وعدوں پر عمل کے اعلانات سن چکے ہیں۔
مصر میں احتجاجی مظاہروں کی شروعات انٹرنیٹ پر سماجی ویب سائٹس ہوئیں اور مظاہرین کا تعلق زیادہ تر تعلیم یافتہ اورمتوسط طبقے سے ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر اکٹھے ہونے والے ہجوم میں معاشرے کے دوسرے طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ان میں شامل ہوتے گئے۔ تاہم کیا فوج کی مدد سے حکومت مخالف ملک گیر احتجاجی مظاہروں کی حوصلہ شکنی کی جاسکے گی فی الحال اس بار ے میں صورت حال واضح نہیں۔
تیونس کے صدر زین العابدین بن علی نے بھی حکومت کے خلاف بغاوت کا رخ موڑنے کے لیے ایسے ہی اقدامات کا اعلان کیا لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ فوج مظاہرین پر گولی نہیں چلانا چاہتی تو وہ مستعفی ہوگئے۔ صبح کے وقت حکومت کو برطر ف کرنے اور قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنے والے تیونس کے صدر شام کے وقت ملک سے فرار ہوکر سیاسی پناہ کے لیے سعودی عرب پہنچ گئے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مصر میں مظاہروں اور حکومت کے مستقبل کا دارومدار فوج کے کردار پر ہوگا لیکن فل الحال اس بارے میں صورت حال واضح نہیں ہے۔
مصرمیں طاقت ور فوج کے ادارے پر 82 سالہ صدر مبارک، جو فضائیہ کے سابق کمانڈر بھی تھے، کی گرفت بظاہر مضبوطی سے قائم ہے اور فوج سے تصادم مظاہرین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
مصر میں 2004ء میں کابینہ کی تشکیل کے بعد ملک میں محصولات اور کسٹم ڈیوٹی میں کمی کے اعلانات کے بعد ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس نے حالیہ برسوں میں اقتصاد ی ترقی کی شرح چھ فیصد رہی لیکن ملک کی غر یب عوام کو شکایت ہے کہ معاشی خوشحالی کے اثرات اُن تک نہیں پہنچ رہے۔
مصر میں سرمایہ کار بظاہر اس تذبذب کا شکار ہے کہ نئی کابینہ میں اقتصادی امور کی ذمہ داریا ں کسے سونپی جائیں گی اور کیا اقتصادی اصلاحات کا عمل روک دیا جائے گا۔