قاہرہ کی سیدہ زینب مسجد کے ارد گرد کے گلی کوچوں میں، عید الاضحٰی کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ بہت سے لوگ ان قربانیوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو اس سال ان کے ہم وطنوں نے اپنے ملک کی خاطر دی ہیں۔ اس قدیم محلے میں، نوجوان قصاب ، احمد ان بہت سے لوگوں کو یاد کر رہے ہیں جنہوں نے مصر کے انقلاب کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے اپنے ملک کی خاطر سب سے بڑی قربانی دی ۔
عیدا لاضحی کا تہوار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جذبۂ قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی روایات کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے، کو خدا کی راہ میں قربان کر دیں۔احمد کہتے ہیں کہ مصر کے لوگوں کی قربانیاں ان لوگوں کے ساتھ ختم نہیں ہوئیں جو انقلاب لانے کے لیے شہید ہو گئے ۔ لوگ آج بھی قربانیا ں دے رہے ہیں۔ ملک میں پیسہ نہیں ہے اور نوجوان سخت پریشان ہیں ۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ نہ صرف مصر میں، بلکہ پوری عرب دنیا میں جو قربانیاں دی گئی ہیں ، ان کا فائدہ بیرونی ملکوں کو ہوا ہے ۔
احمد کے ساتھ قصاب ابو بکر محمد کہتے ہیں کہ عراق کے صدام حسین کو 2006 میں عید الاضحی کے پہلے روز پھانسی دی گئی تھی، اور لیبیا کے معمر قذافی کو اسی طرح ذبح کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ عربوں کو متحد ہو جانا چاہیئے کیوں کہ ہر سال عربوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور کچھ اور ملک ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔
مصر کے لوگ انقلاب کے بعد کے دور میں اپنی راہ تلاش کر رہے ہیں اور بہت سے شعبوں میں لوگوں کی مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ بعض لوگ ابو بکر محمد کی طرح ، بیرونی طاقتوں کو الزام دیتے ہیں، جب کہ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ ان کے نئے لیڈر اپنے ان وعدوں سے منحرف ہو گئے ہیں کہ وہ بہتر زندگی فراہم کریں گے ۔
سیدہ زینب مسجد کے آس پاس کے گلی کوچوں سے گذرتے ہوئے، یحییٰ ایک گائے کو اس مقام پر لے جا رہے ہیں جہاں اسے قربان کیا جائے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے پیارے بیٹے کو خدا کے حکم پر قربان کرنے کو تیار ہوگئے، تو عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے کی جگہ قربان گاہ پر ایک دنبہ بھیج دیا۔
یحییٰ کہتے ہیں کہ مصریوں کو ابھی اور بہت سی قربانیاں دینی ہیں، لیکن وہ دن دور نہیں جب انہیں ان قربانیوں کا صلہ ملے گا۔’’میری بات مانو، ہمیں صبر و تحمل کی ضرورت ہے ۔ ہمارا ملک اٹھ کھڑا ہوگا۔ مصر میں نئے صدر آئیں گے، اچھی پارلیمینٹ بنے گی اور اعلٰی درجے کا ٰ آئین بنے گا۔‘‘
یحیی کہتے ہیں کہ تبدیلی راتوں رات نہیں آ سکتی ۔ اللہ تعالی ٰ چاہتا تو پوری دنیا ایک دن میں تخلیق کر سکتا تھا، لیکن اس نے چھ دن لیے ، تا کہ ہم صبر کرنا سیکھیں۔