ایک سابق امریکی سفارت کار کہتے ہیں کہ مصر کی موجودہ عبوری حکومت نئی بوتل میں پرانی شراب ہے جو مبارک دور کے طرزِ حکومت کو از سرِ نو متعارف کر رہی ہے۔
واشنگٹن —
نبیل فہمی کےلیے امریکہ اتنا اجنبی پہلے کبھی نہیں تھا۔ وہ نیویارک میں پیدا ہوئے اور نو سال تک واشنگٹن میں مصر کے سفیر تعینات رہے۔ لیکن مصر کی عبوری حکومت کے وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے نبیل کا حالیہ دورہ امریکہ ان کےلیے کچھ زیادہ خوش گوار ثابت نہیں ہوا۔
اس دورے کے دوران نبیل فہمی مصر کے لیے 65 کروڑ ڈالر کی امریکی فوجی امداد کی بحالی پر اوباما انتظامیہ کو آمادہ کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ امداد امریکہ نے مصر میں گزشتہ سال جمہوری حکومت کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد معطل کردی تھی۔
لیکن دوسری جانب انہیں واشنگٹن میں منعقدہ عوامی تقریبات میں مصری حکومت کی کارروائیوں پر سخت سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا اور مصر میں شہری آزادیوں کی پامالی اور سیاسی کارکنوں کےخلاف جاری کریک ڈاؤن پر وضاحتیں پیش کرنا پڑیں۔
مصری وزیرِ خارجہ کے بقول ان کا ملک "تبدیلی کے عمل" سے گزر رہا ہے اور امریکی اشرافیہ کو اس کے نتائج اور مصر میں آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات کے انعقاد کا تحمل سے انتظار کرنا چاہیے۔
لیکن مصر کی سیاسی تاریخ سے آشنا امریکیوں کا موقف ہے کہ عرب دنیا کے اس گنجان ترین ملک کی صورتِ حال سابق آمر حسنی مبارک کے دور سے بھی بد تر ہوچکی ہے اور حالات کسی بہتر رخ پر جاتے نظر نہیں آرہے۔
حسنی مبارک کو تین سال قبل ایک مقبول احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے الگ ہونا پڑا تھا۔ لیکن اس سے قبل وہ 30 سال تک ملک پر بلا شرکت غیرے حکومت کرتے رہے تھے۔
مبارک کے پورے دورِ اقتدار میں مصر میں "ہنگامی حالت" نافذ رہی تھی جس کا نفاذ 1981ء میں ان کے پیش رو صدر انور السادات کے قتل کے بعد کیا گیا تھا۔ اس ہنگامی حالت کے تحت مصری عوام کے بنیادی حقوق 30 سال تک معطل رہے۔
ایک سابق امریکی سفارت کار مائیکل ڈیون کہتے ہیں کہ مصر کی موجودہ عبوری حکومت نئی بوتل میں پرانی شراب ہے جو مبارک دور کے طرزِ حکومت کو از سرِ نو متعارف کر رہی ہے۔
حسنی مبارک کا تعلق بھی مصر کی مسلح افواج سے تھا اور وہ فضائیہ کے سربراہ رہے تھے۔ اس وقت بھی مصر کی عبوری حکومت کا وجود ایک اور فوجی، فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسی کا مرہونِ منت ہے جو آئندہ ماہ ہونے والا صدارتی انتخاب لڑ کر ملک کا نیا صدر بننے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔
مائیکل ڈیون کہتے ہیں کہ مصر مشرقِ وسطیٰ کا دوسرا سعودی عرب بنتا جارہا ہے جہاں سیاسی اختلافِ رائے کو دہشت گردی جیسا جرم بنادیا گیا ہے۔
ڈیون کے بقول سعودی عرب اور مصر دونوں نے ہی 'اخوان المسلمون' جیسی منظم مذہبی جماعت کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے جو ایک سال قبل تک مصر کی حکمران جماعت تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ اخوان کو دہشت گرد قرار دینے کے مصری حکومت کے فیصلے کے پیچھے ان اربوں ڈالر کا ہاتھ ہے جو سعودی عرب نے معیشت کی بحالی کے نام پر اخوان کی حکومت کا تختہ الٹنے والے مصری حکام کو دیے ہیں۔
یہ درست ہے کہ اخوان المسلمون نے اپنے ایک سالہ اقتدار کے دوران اختیارات کا بے جا استعمال کیا اور اخوان سے وابستہ معزول صدر محمد مرسی کی حکومت مصری عوام کی امنگوں پر پورا اترنے میں ناکام رہی۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر مرسی کی معزولی اور فوج کے بلاواسطہ اقتدار میں آجانے کے بعد ملک کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں اور حکومت اسلام پسندوں کے ساتھ ساتھ سیکولر مخالفین کے خلاف بھی انتقامی کارروائیوں میں بہت آگے نکل گئی ہے۔
گزتہ سال تین جولائی کو ہونے والے اس فوجی بغاوت کے بعد سے مصر میں اب تک دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن کی اکثریت سکیورٹی فورسز کی گولیوں اور تشدد کا نشانہ بنے۔ بیس ہزار سے زائد سیاسی کارکن اور معزول صدر کے حامی جیلوں میں قید ہیں۔
معزول صدر کے حامیوں کے خلاف چلنے والے اجتماعی مقدمات اور ان میں سیکڑوں افراد کو پھانسی کی سزا کے عدالتی فیصلوں نے مصر میں حکام کی جانب سے اختیارات کے بے جا استعمال اور مخالفین کو دیوار سے لگانے کی کوششوں کو مزید عیاں کردیا ہے۔
یہ واضح ہے کہ اگر مصر کی عبوری حکومت نے اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ اور حکومت سے اختلاف رکھنے والی لبرل جماعتوں کو آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں آزادانہ شرکت کا موقع نہ دیا تو ان انتخابات کی ساکھ پر ایک بڑ اسوالیہ نشان لگ جائے گا۔
لیکن مصر کو صرف سیاسی بحران ہی درپیش نہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے تشدد نے ملک کی معیشت کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔
اپنے دورے کے دوران واشنگٹن میں ایک 'تھنک ٹینک' سے خطاب کرتے ہوئے مصری وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کی آبادی نو کروڑ ہے جو 2030ء تک بڑھ کے 10 کروڑ ہوجائے گی۔
نبیل فہمی نے کہا کہ آبادی میں اس اضافے کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ مصری معیشت آٹھ سے 10 فی صد سالانہ کی شرح سے ترقی کرے۔ لیکن، ان کے بقول، ملک میں جاری کریک ڈاؤن اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے محدود ہوتے مواقع عدم استحکام کو بڑھا رہے ہیں جس کے نتیجے میں سیاح اور سرمایہ کار مصر آنے سے کترا نے لگے ہیں۔
اوباما انتظامیہ کے پاس نبٹانے کے لیے اس وقت اور بہت سے بکھیڑے ہیں۔ شام اور یوکرین کی صورتِ حال اس بات کی کہیں زیادہ متقاضی ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور ان پر توجہ دے۔ لہذا مصر کو واشنگٹن میں وہ توجہ نہیں مل پارہی جو کبھی اسے ملا کرتی تھی۔
لیکن مسئلہ صرف امریکی توجہ کا نہیں بلکہ حکمتِ عملی کا بھی ہے جسے سمجھنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں۔ وہائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے جہاں اخوان کے سیکڑوں کارکنوں کو مصری عدالتوں سے ملنے والی موت کی سزا پر تنقید کی ہے، وہیں مصر کو 10 اپاچی ہیلی کاپٹر فروخت کرنے کی بھی منظوری دیدی ہے جو صحرائے سینا میں 'القاعدہ' کے خلاف لڑائی میں استعمال ہوں گے۔
لیکن اوباما انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف خود امریکی کانگریس میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اور غیر ملکی امداد کی نگرانی کرنے والی امریکی سینیٹ کی کمیٹی کے چیئرمین نے خبردار کیا ہے کہ مصر میں انسانی حقوق کی ابتر صورتِ حال کے باعث وہ اس سودے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اپنے دورۂ امریکہ کے دوران مصری وزیرِ خارجہ نے 'اخوان المسلمون' کو اٹلی کی 'ریڈ آرمی' اور جرمنی کی 'بادر میوف' جیسی دہشت گرد تنظیموں سے تشبیہ دی جو 1970ء کے عشرے میں بم دھماکے کرنے اور حکومتی اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھیں۔
لیکن یہ موازنہ حقیقت سے خاصا دور ہے۔ ستر کی دہائی کی یہ تنظیمیں زیرِ زمین تھیں جنہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ اس کے برعکس اخوان المسلمون مصر کی ایک مضبوط اور منظم سیاسی قوت ہے جسے اب بھی کم از کم 20 فی صد مصری عوام کی حمایت حاصل ہے۔
سنہ 1928 میں اپنے قیام کے بعد سے اخوان نے مصری عوام کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرکے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں۔ ایسے میں اخوان کو کالعدم قرار دے کر دہشت گردی ختم کرنے کا دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کینسر کا علاج مریض کا گلا دبا کر کرے۔
لیکن مصر جس تصادم کے راہ پر چل پڑا ہے، اسے روکنا اوباما انتظامیہ کے کلی اختیار میں نہیں۔ امریکہ مصری حکومت کو برداشت اور سیاسی روداری اختیار کرنے پرمجبور نہیں کرسکتا۔
لیکن مصریوں کے دوست ہونے کے ناطے امریکیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فراعینِ مصر اور ان کے سفیروں کے سامنے حق گوئی کا مظاہرہ کریں اور انہیں بتائیں کہ وہ جو کر رہے ہیں، وہ غلط ہے۔
نبیل فہمی کو اپنے دورۂ امریکہ کے دوران جس تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس پر انہیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ انہیں جو کچھ واشنگٹن میں سننا پڑا ہے وہ اسے من و عن اپنے ملک کے رہنماؤں کے گوش گزار کردیں تاکہ انہیں پتا چلے کہ ان کی آمرانہ روش امریکیوں کو پریشان کر رہی ہے۔ اور امریکیوں کی پریشانی پر انہیں پریشان ہونا چاہیے۔
اس دورے کے دوران نبیل فہمی مصر کے لیے 65 کروڑ ڈالر کی امریکی فوجی امداد کی بحالی پر اوباما انتظامیہ کو آمادہ کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ امداد امریکہ نے مصر میں گزشتہ سال جمہوری حکومت کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد معطل کردی تھی۔
لیکن دوسری جانب انہیں واشنگٹن میں منعقدہ عوامی تقریبات میں مصری حکومت کی کارروائیوں پر سخت سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا اور مصر میں شہری آزادیوں کی پامالی اور سیاسی کارکنوں کےخلاف جاری کریک ڈاؤن پر وضاحتیں پیش کرنا پڑیں۔
مصری وزیرِ خارجہ کے بقول ان کا ملک "تبدیلی کے عمل" سے گزر رہا ہے اور امریکی اشرافیہ کو اس کے نتائج اور مصر میں آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات کے انعقاد کا تحمل سے انتظار کرنا چاہیے۔
لیکن مصر کی سیاسی تاریخ سے آشنا امریکیوں کا موقف ہے کہ عرب دنیا کے اس گنجان ترین ملک کی صورتِ حال سابق آمر حسنی مبارک کے دور سے بھی بد تر ہوچکی ہے اور حالات کسی بہتر رخ پر جاتے نظر نہیں آرہے۔
حسنی مبارک کو تین سال قبل ایک مقبول احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے الگ ہونا پڑا تھا۔ لیکن اس سے قبل وہ 30 سال تک ملک پر بلا شرکت غیرے حکومت کرتے رہے تھے۔
مبارک کے پورے دورِ اقتدار میں مصر میں "ہنگامی حالت" نافذ رہی تھی جس کا نفاذ 1981ء میں ان کے پیش رو صدر انور السادات کے قتل کے بعد کیا گیا تھا۔ اس ہنگامی حالت کے تحت مصری عوام کے بنیادی حقوق 30 سال تک معطل رہے۔
ایک سابق امریکی سفارت کار مائیکل ڈیون کہتے ہیں کہ مصر کی موجودہ عبوری حکومت نئی بوتل میں پرانی شراب ہے جو مبارک دور کے طرزِ حکومت کو از سرِ نو متعارف کر رہی ہے۔
حسنی مبارک کا تعلق بھی مصر کی مسلح افواج سے تھا اور وہ فضائیہ کے سربراہ رہے تھے۔ اس وقت بھی مصر کی عبوری حکومت کا وجود ایک اور فوجی، فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسی کا مرہونِ منت ہے جو آئندہ ماہ ہونے والا صدارتی انتخاب لڑ کر ملک کا نیا صدر بننے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔
مائیکل ڈیون کہتے ہیں کہ مصر مشرقِ وسطیٰ کا دوسرا سعودی عرب بنتا جارہا ہے جہاں سیاسی اختلافِ رائے کو دہشت گردی جیسا جرم بنادیا گیا ہے۔
ڈیون کے بقول سعودی عرب اور مصر دونوں نے ہی 'اخوان المسلمون' جیسی منظم مذہبی جماعت کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے جو ایک سال قبل تک مصر کی حکمران جماعت تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ اخوان کو دہشت گرد قرار دینے کے مصری حکومت کے فیصلے کے پیچھے ان اربوں ڈالر کا ہاتھ ہے جو سعودی عرب نے معیشت کی بحالی کے نام پر اخوان کی حکومت کا تختہ الٹنے والے مصری حکام کو دیے ہیں۔
یہ درست ہے کہ اخوان المسلمون نے اپنے ایک سالہ اقتدار کے دوران اختیارات کا بے جا استعمال کیا اور اخوان سے وابستہ معزول صدر محمد مرسی کی حکومت مصری عوام کی امنگوں پر پورا اترنے میں ناکام رہی۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر مرسی کی معزولی اور فوج کے بلاواسطہ اقتدار میں آجانے کے بعد ملک کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں اور حکومت اسلام پسندوں کے ساتھ ساتھ سیکولر مخالفین کے خلاف بھی انتقامی کارروائیوں میں بہت آگے نکل گئی ہے۔
گزتہ سال تین جولائی کو ہونے والے اس فوجی بغاوت کے بعد سے مصر میں اب تک دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن کی اکثریت سکیورٹی فورسز کی گولیوں اور تشدد کا نشانہ بنے۔ بیس ہزار سے زائد سیاسی کارکن اور معزول صدر کے حامی جیلوں میں قید ہیں۔
معزول صدر کے حامیوں کے خلاف چلنے والے اجتماعی مقدمات اور ان میں سیکڑوں افراد کو پھانسی کی سزا کے عدالتی فیصلوں نے مصر میں حکام کی جانب سے اختیارات کے بے جا استعمال اور مخالفین کو دیوار سے لگانے کی کوششوں کو مزید عیاں کردیا ہے۔
یہ واضح ہے کہ اگر مصر کی عبوری حکومت نے اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ اور حکومت سے اختلاف رکھنے والی لبرل جماعتوں کو آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں آزادانہ شرکت کا موقع نہ دیا تو ان انتخابات کی ساکھ پر ایک بڑ اسوالیہ نشان لگ جائے گا۔
لیکن مصر کو صرف سیاسی بحران ہی درپیش نہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے تشدد نے ملک کی معیشت کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔
اپنے دورے کے دوران واشنگٹن میں ایک 'تھنک ٹینک' سے خطاب کرتے ہوئے مصری وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کی آبادی نو کروڑ ہے جو 2030ء تک بڑھ کے 10 کروڑ ہوجائے گی۔
نبیل فہمی نے کہا کہ آبادی میں اس اضافے کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ مصری معیشت آٹھ سے 10 فی صد سالانہ کی شرح سے ترقی کرے۔ لیکن، ان کے بقول، ملک میں جاری کریک ڈاؤن اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے محدود ہوتے مواقع عدم استحکام کو بڑھا رہے ہیں جس کے نتیجے میں سیاح اور سرمایہ کار مصر آنے سے کترا نے لگے ہیں۔
اوباما انتظامیہ کے پاس نبٹانے کے لیے اس وقت اور بہت سے بکھیڑے ہیں۔ شام اور یوکرین کی صورتِ حال اس بات کی کہیں زیادہ متقاضی ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور ان پر توجہ دے۔ لہذا مصر کو واشنگٹن میں وہ توجہ نہیں مل پارہی جو کبھی اسے ملا کرتی تھی۔
لیکن مسئلہ صرف امریکی توجہ کا نہیں بلکہ حکمتِ عملی کا بھی ہے جسے سمجھنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں۔ وہائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے جہاں اخوان کے سیکڑوں کارکنوں کو مصری عدالتوں سے ملنے والی موت کی سزا پر تنقید کی ہے، وہیں مصر کو 10 اپاچی ہیلی کاپٹر فروخت کرنے کی بھی منظوری دیدی ہے جو صحرائے سینا میں 'القاعدہ' کے خلاف لڑائی میں استعمال ہوں گے۔
لیکن اوباما انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف خود امریکی کانگریس میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اور غیر ملکی امداد کی نگرانی کرنے والی امریکی سینیٹ کی کمیٹی کے چیئرمین نے خبردار کیا ہے کہ مصر میں انسانی حقوق کی ابتر صورتِ حال کے باعث وہ اس سودے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اپنے دورۂ امریکہ کے دوران مصری وزیرِ خارجہ نے 'اخوان المسلمون' کو اٹلی کی 'ریڈ آرمی' اور جرمنی کی 'بادر میوف' جیسی دہشت گرد تنظیموں سے تشبیہ دی جو 1970ء کے عشرے میں بم دھماکے کرنے اور حکومتی اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھیں۔
لیکن یہ موازنہ حقیقت سے خاصا دور ہے۔ ستر کی دہائی کی یہ تنظیمیں زیرِ زمین تھیں جنہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ اس کے برعکس اخوان المسلمون مصر کی ایک مضبوط اور منظم سیاسی قوت ہے جسے اب بھی کم از کم 20 فی صد مصری عوام کی حمایت حاصل ہے۔
سنہ 1928 میں اپنے قیام کے بعد سے اخوان نے مصری عوام کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرکے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں۔ ایسے میں اخوان کو کالعدم قرار دے کر دہشت گردی ختم کرنے کا دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کینسر کا علاج مریض کا گلا دبا کر کرے۔
لیکن مصر جس تصادم کے راہ پر چل پڑا ہے، اسے روکنا اوباما انتظامیہ کے کلی اختیار میں نہیں۔ امریکہ مصری حکومت کو برداشت اور سیاسی روداری اختیار کرنے پرمجبور نہیں کرسکتا۔
لیکن مصریوں کے دوست ہونے کے ناطے امریکیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فراعینِ مصر اور ان کے سفیروں کے سامنے حق گوئی کا مظاہرہ کریں اور انہیں بتائیں کہ وہ جو کر رہے ہیں، وہ غلط ہے۔
نبیل فہمی کو اپنے دورۂ امریکہ کے دوران جس تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس پر انہیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ انہیں جو کچھ واشنگٹن میں سننا پڑا ہے وہ اسے من و عن اپنے ملک کے رہنماؤں کے گوش گزار کردیں تاکہ انہیں پتا چلے کہ ان کی آمرانہ روش امریکیوں کو پریشان کر رہی ہے۔ اور امریکیوں کی پریشانی پر انہیں پریشان ہونا چاہیے۔