استغاثہ نے اخوان کے رہنمائوں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے پیر کو ایک فوجی بیرک کے باہر مظاہرین کو تشدد پر اکسایا تھا
واشنگٹن —
مصر میں حکام نے لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں اخوان المسلمین کے کئی مرکزی رہنمائوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے ہیں۔
مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل نے جن رہنمائوں کی گرفتاری کا حکم دیا ہے ان میں 'اخوان المسلمین' کے سربراہ محمد بدیع بھی شامل ہیں۔
استغاثہ نے اخوان کے رہنمائوں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے پیر کو ایک فوجی بیرک کے باہر مظاہرین کو تشدد پر اکسایا تھا جس پر وہاں موجود فوجی اہلکاروں کو فائرنگ کرنا پڑی تھی۔ اس واقعے میں 55 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
اخوان کے رہنمائوں کے موقف ہے کہ ان کے ہزاروں حامی فوجی بیرک کے باہر نمازِ فجر ادا کر رہے تھے جب فوجی اہلکاروں نے نہتے مظاہرین پر بلااشتعال فائرنگ شروع کردی۔
اس کے برعکس فوجی افسران کا کہنا ہے "دہشت گردوں" کے ایک گروہ کی جانب سے فوجی مرکز پر دھاوا بولنے کے بعد وہاں تعینات اہلکاروں کو اپنے دفاع میں فائرنگ کرنا پڑی تھی۔
جس فوجی بیرک کے باہر تشدد کا یہ واقعہ پیش آیا وہاں بعض اطلاعات کے مطابق اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے محمد مرسی کو قید رکھا گیا ہے جنہیں فوج نے گزشتہ ہفتے صدر کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
استغاثہ نے اخوان المسلمین کے سربراہ کے علاوہ جن رہنمائوں کی گرفتاری کا حکم دیا ہے ان میں نائب سربراہ محمود عزت ، اخوان کے سیاسی ونگ 'فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی' کے نائب سربراہ اعصام العریان اور محمد البلتاجی شامل ہیں۔ ایک اور سینئر رہنما خیرت الشاطر کو پہلے ہی حراست میں لیا جاچکا ہے۔
اخوان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ جن رہنمائوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں وہ تاحال آزاد ہیں اور بدستور دارالحکومت قاہرہ کے میدان رابعۃ العدویہ میں جاری احتجاج میں شریک ہیں جہاں اخوان کے ہزاروں کارکن گزشتہ ایک ہفتے سے صدر مرسی کی برطرفی کے خلاف دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
ترجمان نے رہنمائوں کے وارنٹ گرفتاری کو صدرمرسی کی برطرفی کےخلاف جاری احتجاج سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔
استغاثہ نے اخوان کے ان 206 کارکنوں کو بھی مزید 15 روز تک حراست میں رکھنے کا حکم جاری کیا ہے جنہیں پیر کو پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتار کیے جانے والے 464 دیگر افراد کی ضمانت پر رہائی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
مصری استغاثہ کی جانب سے اخوان کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری کے احکامات کے اجرا سے قبل ملک کے نامزد عبوری وزیرِاعظم نے عندیہ دیا تھا کہ وہ اخوانی رہنمائوں کو کابینہ میں شامل ہونے کی پیش کش کرسکتے ہیں۔
اخوان المسلمین کے رہنمائوں نے نامزد عبوری وزیرِاعظم حاظم البیلاوی کی متوقع پیش کش مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ صدر مرسی کی بحالی کے مطالبے پر قائم ہیں اور عبوری انتظامیہ کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کریں گے۔
مصر کی دوسری بڑی اسلام پسند جماعت 'النور' نے بھی اعلان کیا ہے کہ پیر کو ہونے والی ہلاکتوں کی عدالتی تحقیقات کا نتیجہ سامنے آنے تک وہ عبوری کابینہ میں شامل نہیں ہوگی۔
خیال رہے کہ حزبِ اختلاف کی جانب سے تین روز تک جاری رہنے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد مصر کی فوج نے گزشتہ ہفتےصدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
فوج نے ملکی آئین کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے آئینی عدالت کے چیف جسٹس عدلی منصور کو ملک کا عبوری صدر مقرر کیا تھا جنہوں نے سابق وزیرِ خزانہ حاظم البیلاوی کو عبوری وزیرِاعظم نامزد کیا ہے۔
عبوری صدر نے فوج کی منظوری سے ملک کے موجودہ آئین کے جائزے کے لیے پینل تشکیل دینے اور اس کی تجویز کردہ ترامیم کی منظوری کے لیے آئندہ پانچ ماہ میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے۔
عبوری انتظامیہ نے ریفرنڈم کے بعد آئندہ برس کے آغاز میں نئے پارلیمانی انتخابات اور بعد ازاں صدارتی انتخاب کرانے کا بھی اعلان کیا ہے جسے اخوان اور اس کی اتحادی اسلام پسند جماعتوں نے مسترد کردیا ہے۔
مصر کی بیشتر سیکولر اور لبرل جماعتیں عبوری انتظامیہ کے اس مجوزہ منصوبے کی حمایت کر رہی ہیں۔
مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل نے جن رہنمائوں کی گرفتاری کا حکم دیا ہے ان میں 'اخوان المسلمین' کے سربراہ محمد بدیع بھی شامل ہیں۔
استغاثہ نے اخوان کے رہنمائوں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے پیر کو ایک فوجی بیرک کے باہر مظاہرین کو تشدد پر اکسایا تھا جس پر وہاں موجود فوجی اہلکاروں کو فائرنگ کرنا پڑی تھی۔ اس واقعے میں 55 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
اخوان کے رہنمائوں کے موقف ہے کہ ان کے ہزاروں حامی فوجی بیرک کے باہر نمازِ فجر ادا کر رہے تھے جب فوجی اہلکاروں نے نہتے مظاہرین پر بلااشتعال فائرنگ شروع کردی۔
اس کے برعکس فوجی افسران کا کہنا ہے "دہشت گردوں" کے ایک گروہ کی جانب سے فوجی مرکز پر دھاوا بولنے کے بعد وہاں تعینات اہلکاروں کو اپنے دفاع میں فائرنگ کرنا پڑی تھی۔
جس فوجی بیرک کے باہر تشدد کا یہ واقعہ پیش آیا وہاں بعض اطلاعات کے مطابق اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے محمد مرسی کو قید رکھا گیا ہے جنہیں فوج نے گزشتہ ہفتے صدر کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
استغاثہ نے اخوان المسلمین کے سربراہ کے علاوہ جن رہنمائوں کی گرفتاری کا حکم دیا ہے ان میں نائب سربراہ محمود عزت ، اخوان کے سیاسی ونگ 'فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی' کے نائب سربراہ اعصام العریان اور محمد البلتاجی شامل ہیں۔ ایک اور سینئر رہنما خیرت الشاطر کو پہلے ہی حراست میں لیا جاچکا ہے۔
اخوان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ جن رہنمائوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں وہ تاحال آزاد ہیں اور بدستور دارالحکومت قاہرہ کے میدان رابعۃ العدویہ میں جاری احتجاج میں شریک ہیں جہاں اخوان کے ہزاروں کارکن گزشتہ ایک ہفتے سے صدر مرسی کی برطرفی کے خلاف دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
ترجمان نے رہنمائوں کے وارنٹ گرفتاری کو صدرمرسی کی برطرفی کےخلاف جاری احتجاج سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔
استغاثہ نے اخوان کے ان 206 کارکنوں کو بھی مزید 15 روز تک حراست میں رکھنے کا حکم جاری کیا ہے جنہیں پیر کو پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتار کیے جانے والے 464 دیگر افراد کی ضمانت پر رہائی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
مصری استغاثہ کی جانب سے اخوان کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری کے احکامات کے اجرا سے قبل ملک کے نامزد عبوری وزیرِاعظم نے عندیہ دیا تھا کہ وہ اخوانی رہنمائوں کو کابینہ میں شامل ہونے کی پیش کش کرسکتے ہیں۔
اخوان المسلمین کے رہنمائوں نے نامزد عبوری وزیرِاعظم حاظم البیلاوی کی متوقع پیش کش مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ صدر مرسی کی بحالی کے مطالبے پر قائم ہیں اور عبوری انتظامیہ کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کریں گے۔
مصر کی دوسری بڑی اسلام پسند جماعت 'النور' نے بھی اعلان کیا ہے کہ پیر کو ہونے والی ہلاکتوں کی عدالتی تحقیقات کا نتیجہ سامنے آنے تک وہ عبوری کابینہ میں شامل نہیں ہوگی۔
خیال رہے کہ حزبِ اختلاف کی جانب سے تین روز تک جاری رہنے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد مصر کی فوج نے گزشتہ ہفتےصدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
فوج نے ملکی آئین کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے آئینی عدالت کے چیف جسٹس عدلی منصور کو ملک کا عبوری صدر مقرر کیا تھا جنہوں نے سابق وزیرِ خزانہ حاظم البیلاوی کو عبوری وزیرِاعظم نامزد کیا ہے۔
عبوری صدر نے فوج کی منظوری سے ملک کے موجودہ آئین کے جائزے کے لیے پینل تشکیل دینے اور اس کی تجویز کردہ ترامیم کی منظوری کے لیے آئندہ پانچ ماہ میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے۔
عبوری انتظامیہ نے ریفرنڈم کے بعد آئندہ برس کے آغاز میں نئے پارلیمانی انتخابات اور بعد ازاں صدارتی انتخاب کرانے کا بھی اعلان کیا ہے جسے اخوان اور اس کی اتحادی اسلام پسند جماعتوں نے مسترد کردیا ہے۔
مصر کی بیشتر سیکولر اور لبرل جماعتیں عبوری انتظامیہ کے اس مجوزہ منصوبے کی حمایت کر رہی ہیں۔