مصر: غیرقانونی مظاہرے، 23 افراد کو تین سال قید کی سزا

فائل

اُن پر اُس قانون کی خلاف ورزی کا الزام ہے جِس کے تحت احتجاجی مظاہرے سے قبل پولیس سے باضابطہ اجازت لینا لازم ہے؛ جسے صدر عبدالفتاح السیسی کی طرف سے مصر میں اختلاف رائے کو دبانے کا ہتھکنڈہ خیال کیا جاتا ہے

مصر کی ایک عدالت نے غیر قانونی مظاہروں کے الزام میں جمہوریت حامی 23 نوجوانوں کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے، تین سال قید کی سزا سنائی ہے، ایسے میں جب بین الاقوامی سطح پر اُن کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اِن سرگرم کارکنوں کو جون میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اُن پر اُس قانون کی خلاف ورزی کا الزام ہے جِس کے تحت احتجاجی مظاہرے سے قبل پولیس سے باضابطہ اجازت لینا لازم ہے؛ جسے صدر عبدالفتاح السیسی کی طرف سے مصر میں اختلاف رائے کو دبانے کا ہتھکنڈہ خیال کیا جاتا ہے۔

وکیل صفائی، احمد عزت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ فیصلے میں قانونی صقم موجود ہیں۔

بقول اُن کے، ’میرے خیال میں، سزا سیاسی بنیاد پر دی گئی ہے۔ اس کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں۔ ہم تمام ملزمان کو ایک ہی طرح کی سزا نہیں دے سکتے، کیونکہ اُن کے کیس مختلف ہیں، دفعات مختلف ہیں، اور اُن کا جرم مختلف ہے‘۔

اِن میں سے چند سرگرم کارکنوں نے گذشتہ سال فوج کی طرف سے اسلام نواز صدر محمد مرسی کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی حمایت کی تھی۔ تاہم، تب سے وہ السیسی حکومت کے مخالف بن چکے ہیں، جو سڑکوں پر نکل کر احتجاج کی سخت مخالف ہے۔

قاہرہ کے ایک جج نے اتوار کے روز سرگرم کارکنوں میں سے ہر ایک پر تقریباً 1400 ڈالر کا جرمانہ بھی عائد کیا۔

ملزمان میں یارہ سلام اور صنعاٴ سیف شامل ہیں، جن کو ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے ’ضمیر کے قیدی‘ قرار دیا ہے۔