مصری خواتین کی اکثریت اپنی روزانہ کی مصروفیات کے دوران کسی نہ کسی شکل میں نقاب اوڑھتی ہیں۔ سابق صدر انوار سادات کے دور میں معاشرے میں اسلامی رجحانات کا فروغ ہوا تھا جو اخوان المسلمون کے اقتدار میں آنے کے بعد مزید ابھر رہاہے
مصر میں حال میں سرکاری ٹیلی ویژن کی خواتین نیوزکاسٹرز پر طویل عرصے سے عائد نقاب نہ پہننے کی پابندی اٹھا لی گئی ہے۔ یہ فیصلہ اسلامی اکثریت کی حکومت کے میڈیا سربراہ نے کیا ہے جسے برقعہ پہننے والی خواتین نے سراہا ہے جب کہ سیکولر معاشرے کے حامیوں نے اس اقدام کی مذ مت کی ہے۔
ٹیلی ویژن کی نئی اینکر فاطمہ نبیل مصر کے چینل ون سے ایک مرد اینکر کے ساتھ خبریں پیش کرنے والی برقعہ پوش اینکر ہیں۔
مصر کے وزیر اطلاعات صالح عبدالمقصود نے، جن کا تعلق بااثر سیاسی جماعت اخوان المسلمون سے ہے، ہفتے کے روز پریس کو بتایا کہ کئی عشرے قبل سیکولر نظریات کی حامی حکومت کی جانب سے ٹیلی ویژن کی خواتین اینکرز کے نقاب پر عائدپابندی اٹھائے جانے کے بعداب سرکاری ٹیلی ویژن نے برقعہ پہننے والی اناؤنسرز کی بھرتی شروع کردی ہے۔
مصری خواتین کی اکثریت اپنی روزانہ کی مصروفیات کے دوران کسی نہ کسی شکل میں نقاب اوڑھتی ہیں۔ پیرس یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر خاطر ابو دیاب کا کہناہے کہ 1970ء کے عشرے سے مصر ی خواتین میں نقاب کے رجحان نے ترقی کی ۔
وہ کہتے ہیں کہ سابق صدر انوار سادات کے دور میں معاشرے میں اسلامی رجحانات کا فروغ ہوا تھا جو اخوان المسلمون کے اقتدار میں آنے کے بعد مزید ابھر رہاہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب 1940ء، 1950ء اور 1960ء کے عشروں کے برعکس مصر کا اعتدال پسند چہرہ ابھارنے کی بجائے اب اسلام کو زیادہ جگہ دی جارہی ہے۔
ابودیاب کا کہناہے کہ مصر میں اس وقت سنی اور شیعہ مسلمانوں کا غلبہ ہے اور ان دونوں کے لباس سے متعلق نظریات فروغ پارہے ہیں۔
قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد صادق کہتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر خواتین نیوزکاسٹرز کو نقاب کی اجازت دینے کا فیصلہ دراصل انسانی حقوق کے احترام کی ایک علامت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سابق صدر حسنی مبارک نے ٹیلی ویژن کی خواتین اناونسرز کے نقاب پہننے پر پابندی لگادی تھی کیونکہ ان کے خیال میں ٹیلی ویژن کی اینکر خواتین دیہی معاشرے کی خواتین کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتی تھیں۔
وہ کہتے ہیں مبارک انتظامیہ کو خدشہ تھا کہ ٹیلی ویژن پر نقاب کی اجازت دینے سے یہ کلچر پورے معاشرے میں پھیل جائے گا۔
سابق مصری ایڈیٹر ہاشم قاسم کہتے ہیں کہ نیوز کاسٹرز کو ٹیلی ویژن پر نقاب پہننے کی اجازت دینا دراصل انفرادی آزادیوں کو تسلیم کرنے کا عمل ہے۔ لیکن ان کا کہناتھا کہ سرکاری ٹیلی ویژن پر مصر کے ٹیکس گذاروں کی رقم صرف ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ میڈیا کے عہدے دار اپنی ساری توجہ خواتین کے نقاب پر مرکوز کرنے کی بجائے ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے مواد کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
زیادہ تر عرب سیٹلائٹ چینلز نے اپنی خواتین اینکرز کو اسلامی نقاب پہننے کی اجازت دے رکھی ہے۔ لیکن عرب دنیا کے کئی میڈیا ادارے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے نقاب نہ اوڑھنے والی خواتین کو ملازم رکھتے ہیں۔
ٹیلی ویژن کی نئی اینکر فاطمہ نبیل مصر کے چینل ون سے ایک مرد اینکر کے ساتھ خبریں پیش کرنے والی برقعہ پوش اینکر ہیں۔
مصر کے وزیر اطلاعات صالح عبدالمقصود نے، جن کا تعلق بااثر سیاسی جماعت اخوان المسلمون سے ہے، ہفتے کے روز پریس کو بتایا کہ کئی عشرے قبل سیکولر نظریات کی حامی حکومت کی جانب سے ٹیلی ویژن کی خواتین اینکرز کے نقاب پر عائدپابندی اٹھائے جانے کے بعداب سرکاری ٹیلی ویژن نے برقعہ پہننے والی اناؤنسرز کی بھرتی شروع کردی ہے۔
مصری خواتین کی اکثریت اپنی روزانہ کی مصروفیات کے دوران کسی نہ کسی شکل میں نقاب اوڑھتی ہیں۔ پیرس یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر خاطر ابو دیاب کا کہناہے کہ 1970ء کے عشرے سے مصر ی خواتین میں نقاب کے رجحان نے ترقی کی ۔
وہ کہتے ہیں کہ سابق صدر انوار سادات کے دور میں معاشرے میں اسلامی رجحانات کا فروغ ہوا تھا جو اخوان المسلمون کے اقتدار میں آنے کے بعد مزید ابھر رہاہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب 1940ء، 1950ء اور 1960ء کے عشروں کے برعکس مصر کا اعتدال پسند چہرہ ابھارنے کی بجائے اب اسلام کو زیادہ جگہ دی جارہی ہے۔
ابودیاب کا کہناہے کہ مصر میں اس وقت سنی اور شیعہ مسلمانوں کا غلبہ ہے اور ان دونوں کے لباس سے متعلق نظریات فروغ پارہے ہیں۔
قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد صادق کہتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر خواتین نیوزکاسٹرز کو نقاب کی اجازت دینے کا فیصلہ دراصل انسانی حقوق کے احترام کی ایک علامت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سابق صدر حسنی مبارک نے ٹیلی ویژن کی خواتین اناونسرز کے نقاب پہننے پر پابندی لگادی تھی کیونکہ ان کے خیال میں ٹیلی ویژن کی اینکر خواتین دیہی معاشرے کی خواتین کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتی تھیں۔
وہ کہتے ہیں مبارک انتظامیہ کو خدشہ تھا کہ ٹیلی ویژن پر نقاب کی اجازت دینے سے یہ کلچر پورے معاشرے میں پھیل جائے گا۔
سابق مصری ایڈیٹر ہاشم قاسم کہتے ہیں کہ نیوز کاسٹرز کو ٹیلی ویژن پر نقاب پہننے کی اجازت دینا دراصل انفرادی آزادیوں کو تسلیم کرنے کا عمل ہے۔ لیکن ان کا کہناتھا کہ سرکاری ٹیلی ویژن پر مصر کے ٹیکس گذاروں کی رقم صرف ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ میڈیا کے عہدے دار اپنی ساری توجہ خواتین کے نقاب پر مرکوز کرنے کی بجائے ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے مواد کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
زیادہ تر عرب سیٹلائٹ چینلز نے اپنی خواتین اینکرز کو اسلامی نقاب پہننے کی اجازت دے رکھی ہے۔ لیکن عرب دنیا کے کئی میڈیا ادارے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے نقاب نہ اوڑھنے والی خواتین کو ملازم رکھتے ہیں۔