نئے آئین میں سے ان کئی اسلامی دفعات کو نکال دیا گیا ہے جو صدر مرسی کی حکومت کے منظور کردہ آئین میں شامل تھیں۔
واشنگٹن —
مصر کے حکام کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے ہونے والے ریفرنڈم میں رائے دہندگان کی بھاری اکثریت نے نیا آئین منظور کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے بدھ کو حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ14 اور 15 جنوری کو ہونے والے دو روزہ ریفرنڈم کے ابتدائی نتائج کے مطابق ریفرنڈم میں پڑنے والے 90 فی صد ووٹ نئے آئین کے حق میں آئے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار پہلے ہی ریفرنڈم میں نیا آئین بھاری اکثریت سے منظور ہوجانے کی پیش گوئی کرچکے تھے جسے مصر کی فوج اور اس کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
ریفرنڈم کے باضابطہ سرکاری نتائج کا اعلان رواں ہفتے کے اختتام تک متوقع ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ نئے آئین کی کثرتِ رائے سے کامیابی میں کوئی شک نہیں۔
فوج کے ہاتھوں معزول ہونے والے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' اور اس کی اتحادی جماعتوں نے نئے آئین کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مصری باشندوں سے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔
منگل کو ریفرنڈم کے پہلے روز سابق صدر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان مصر کے مختلف شہروں میں ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
لیکن ریفرنڈم کی نگرانی پر مامور مبصرین کے مطابق بدھ کو ریفرنڈم کا دوسرا روز نسبتاً پرامن رہا اور نئے آئین کے مخالفین کی جانب سے پولنگ میں خلل ڈالنے کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔
منظوری کی صورت میں نیا آئین صدر مرسی کی حکومت کی جانب سے 2012ء میں منظور کیے جانے والے آئین کی جگہ نافذ ہوگا جسے فوج نے مرسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد معطل کردیا تھا۔
نئے آئین میں سے ان کئی اسلامی دفعات کو نکال دیا گیا ہے جو صدر مرسی کی حکومت کے منظور کردہ آئین میں شامل تھیں جب کہ مسلح افواج کے اختیارات میں بھی بے تحاشا اضافہ کیا گیا ہے اور عسکری معاملات پر سے سول حکومت کی نگرانی تقریباً ختم کردی گئی ہے۔
نئے آئین کی منظوری اور نفاذ کے بعد اس کے تحت مصر میں نئے صدر اور پارلیمان کے چناؤ کے لیے انتخابات ہوں گے اور قوی امکان ہے کہ مرسی حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی صدارتی انتخاب میں بطور امیدوار حصہ لیں گے۔
خیال رہے کہ 2012ء میں محمد مرسی کے انتخاب سے قبل بھی مصر پر لگ بھگ نصف صدی تک حاضر سروس فوجی جرنیلوں کی حکومت رہی تھی۔
مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے بدھ کو حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ14 اور 15 جنوری کو ہونے والے دو روزہ ریفرنڈم کے ابتدائی نتائج کے مطابق ریفرنڈم میں پڑنے والے 90 فی صد ووٹ نئے آئین کے حق میں آئے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار پہلے ہی ریفرنڈم میں نیا آئین بھاری اکثریت سے منظور ہوجانے کی پیش گوئی کرچکے تھے جسے مصر کی فوج اور اس کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
ریفرنڈم کے باضابطہ سرکاری نتائج کا اعلان رواں ہفتے کے اختتام تک متوقع ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ نئے آئین کی کثرتِ رائے سے کامیابی میں کوئی شک نہیں۔
فوج کے ہاتھوں معزول ہونے والے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' اور اس کی اتحادی جماعتوں نے نئے آئین کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مصری باشندوں سے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔
منگل کو ریفرنڈم کے پہلے روز سابق صدر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان مصر کے مختلف شہروں میں ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
لیکن ریفرنڈم کی نگرانی پر مامور مبصرین کے مطابق بدھ کو ریفرنڈم کا دوسرا روز نسبتاً پرامن رہا اور نئے آئین کے مخالفین کی جانب سے پولنگ میں خلل ڈالنے کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔
منظوری کی صورت میں نیا آئین صدر مرسی کی حکومت کی جانب سے 2012ء میں منظور کیے جانے والے آئین کی جگہ نافذ ہوگا جسے فوج نے مرسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد معطل کردیا تھا۔
نئے آئین میں سے ان کئی اسلامی دفعات کو نکال دیا گیا ہے جو صدر مرسی کی حکومت کے منظور کردہ آئین میں شامل تھیں جب کہ مسلح افواج کے اختیارات میں بھی بے تحاشا اضافہ کیا گیا ہے اور عسکری معاملات پر سے سول حکومت کی نگرانی تقریباً ختم کردی گئی ہے۔
نئے آئین کی منظوری اور نفاذ کے بعد اس کے تحت مصر میں نئے صدر اور پارلیمان کے چناؤ کے لیے انتخابات ہوں گے اور قوی امکان ہے کہ مرسی حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی صدارتی انتخاب میں بطور امیدوار حصہ لیں گے۔
خیال رہے کہ 2012ء میں محمد مرسی کے انتخاب سے قبل بھی مصر پر لگ بھگ نصف صدی تک حاضر سروس فوجی جرنیلوں کی حکومت رہی تھی۔