جب ڈیانا ہائی اسکول چھوڑ کر 'نینی' بنیں

فائل فوٹو

اکتیس اگست 1997 کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں برطانیہ کی شہزادی ڈیانا ایک خوف ناک کار حادثے میں ہلاک ہوگئی تھیں، لیکن 25 برس گزر جانے کے باوجود مداح ان کی موت کو نہیں بھول پائے۔

چھتیس سال کی عمر میں زندگی کی بازی ہار جانے والی شہزادی کو 'دی کوئین آف ہارٹس' یعنی دلوں کی ملکہ کہا جاتا تھا۔ڈیانا کی مقبولیت صرف برطانیہ تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ پوری دنیا میں انہیں پسند کیا جاتا تھا۔

شہزادی ڈیانا کی مقبولیت کی ایک وجہ تو ان کی دلکش شخصیت تھی جب کہ دوسری ان کی فلاحی کاموں میں دلچسپی تھی جو انہیں برطانوی شاہی خاندان سے ممتاز بناتی تھیں۔ وہ عوام سے ملنے کا ہنر بخوبی جانتی تھیں جب کہ ان کا شمار ایڈز کے مریضوں کے حق میں سب سے پہلے آواز بلند کرنے والوں میں ہوتا ہے۔

آئیے ایسی ہی چند کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے شہزادی ڈیانا کو آج بھی اپنے صفحات میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ کسی کتاب نے ان کی نجی زندگی کے وہ راز اظاہر کیے ہیں جو وہ لوگوں کو بتانا چاہتی تھیں جب کہ کچھ نے ان کے بارے میں و ہ کچھ لکھا جس پر یقین کرنا مشکل ہے۔

1۔ ڈیانا: ہر ٹرو اسٹوری

جو لوگ ای7نڈریو مورٹن کے کام سے واقف ہیں انہیں اندازہ ہوگا کہ برطانوی مصنف ملکہ برطانیہ اور ان کے خاندان پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے سن 1992 میں 'ڈیانا: ہر ٹرو اسٹوری' لکھی تھی۔

اپنی کتاب کے نئے ایڈیشن ' ڈیانا: ہر ٹرو اسٹوری، ان ہر اون ورڈز' میں اینڈریو مورٹن لکھتے ہیں کہ اس کتاب کو انہوں نے شہزادی ڈیانا کی مدد سے ترتیب دیا ہے۔ اور اس کام میں ان کا ساتھ ان کے ایک ڈاکٹر دوست نے دیا جن کی وجہ سے وہ شہزادی کی آڈیو ٹیپس محل سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے۔

اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 'ان ہر اون ورڈز ' میں پہلی مرتبہ شہزادی ڈیانا اور ان کے شوہر شہزادہ چارلس کی ازدواجی زندگی کو منظر عام پر لایا گیا۔ اسی کے ذریعے شہزادی نے اپنی بیماری اور چارلس کی سابقہ محبوبہ اور موجودہ بیوی کمیلا پارکر باؤلز کے بارے میں بات کی تھی۔

اینڈریو مورٹن کی کتاب کے منظر عام پر آتے ہی برطانیہ سمیت دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا تھا کیوں کہ اس سے قبل کسی بھی مصنف نے شاہی خاندان کے خلاف اس قسم کے سنگین الزامات نہیں لگائے تھے۔

شہزادہ چارلس سے طلاق کے بعد شہزادی ڈیانا نے اس کتاب کے ایک ایک حرف کو درست قرار دیا اور یوں اینڈریو مورٹن ایک عام صحافی سے دنیا کے مقبول ترین صحافی بن گئے۔ یہ کتاب آج بھی لوگوں کی توجہ کامرکز ہے اور ہر چند سال بعد اسے اضافی معلومات کے ساتھ پھر سے شائع کردیا جاتا ہے۔

2۔ ڈیانا: ہر لاسٹ لو

برطانوی صحافی کیٹ اسنیل کی کتاب شہزادی ڈیانا کی زندگی کے آخری دو سالوں کی کہانی بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب سن 2001 میں منظر عام پر آئی تھی جس میں پہلی مرتبہ بتایا گیا کہ شہزادی ڈیانا نے اپنے انتقال سے تین ماہ قبل پاکستان کا دورہ کیوں کیا تھا؟ اور ان کے دورے کا اصل مقصد کیا تھا۔

اپنی کتاب کے چوتھے حصے کے پہلے ہی باب 'آئی وانٹ ٹو میری حسنات خان' میں کیٹ اسنیل نے ڈیانا کی لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں واقع ڈاکٹر حسنات گھر میں ان کے والدین و خاندان والوں سے ملاقات کا احوال بیان کیا۔

کیٹ اسنیل لکھتی ہیں کہ "ملاقات سے پہلے ہی معاملات اس وقت الجھے الجھے سے لگے جب ڈاکٹر حسنات خان کی والدہ ناہید خان نے ڈیانا سے ملاقات کے لیے اپنے گھر آنے پر ضد کی، حسنات کی والدہ کا کہنا تھا کہ اگر ڈیانا انگلینڈ سے پاکستان آسکتی ہیں تو عمران خان کے گھر سے ماڈل ٹاؤن آنے میں انہیں کوئی دشواری نہیں ہونا چاہیے۔ عمران خان کا مؤقف تھا کہ سیکورٹی کی وجہ سے بہتر یہی ہوتا کہ ڈاکٹر حسنات کے گھروالے عمران خان کے گھر میں ہی ڈیانا سے ملتے۔"

کیٹ اسنیل نے لکھا کہ ڈیانا کو ڈاکٹر حسنات کے گھر عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان ڈرائیو کرکے لے گئی تھیں، جہاں پہنچتے ہی بجلی چلی گئی تھی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سارے خاندان کو باہر صحن میں ہی بیٹھ کر بات کرنا پڑی۔ جس دن ڈیانا حسنات کے گھر گئیں اس دن نہ تو ان کی والدہ نے شادی کے حوالے سے ڈیانا سے کوئی بات کی اور نہ ہی شہزادی نے اس موضوع پر بات کرنا مناسب سمجھا۔

ڈیانا کی ڈاکٹر حسنات کے گھر آمد پر باہر مجمع جمع ہوگیا تھا جسے حسنات خان کے بہنوئی نے ہٹوایا۔

کتاب میں یہ بھی درج ہے کہ جب کچھ دیر کے بعد بجلی واپس آئی تو تمام گھروالوں نے اندر جانے کا فیصلہ کیا جہاں شہزادی ڈیانا نے خاندان کے بچوں کے ساتھ ایک گھنٹہ 'پینیلپی پٹ اسٹاپ اینڈ دی ویکی ریسز' کارٹون دیکھا اور پھر واپس آگئیں۔ یہ ڈاکٹر حسنات کی والدہ ناہید خان اور ڈیانا کی پہلی اور آخری ملاقات ثابت ہوئی، جو بے نیجہ رہی۔

اس ملاقات کے بعد ڈیانا نے گھر پہنچتے ہی عمران خان سے ایک گھنٹہ گفتگو کی جس کے بعد بھی وہ پرامید تھیں کہ ڈاکٹر حسنات ہی ان کے لئے بہترین چوائس ہے۔ اس سے قبل واپس آتے ہوئے گاڑی میں وہ عمران کی بہن علیمہ کو بھی بتا چکی تھیں کہ ڈاکٹر حسنات کا پریس کو نہ کبھی اپنے اور ڈیانا کے بارے میں بتانا انہیں دوسروں سے ممتاز بناتا ہے۔

3۔ دی ڈیانا آئی نیو

اس کتاب کی مصنفہ میری رابرٹسن ڈیانا اسپینسر کو اس وقت سے جانتی تھیں جب وہ 18 برس کی عمر میں ان کے بیٹےپیٹرک کو بے بی سِٹ کیا کرتی تھیں۔ ان کے خیال میں ڈیانا بطور 'نینی 'تو اچھی تھیں ہی لیکن بطور انسان بھی ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔

سن 1998 میں شائع ہونے والی اس کتاب میں انہوں نے اُس ڈیانا کا ذکر کیا جو 18 سال کی عمر میں ہائی اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہوکر لندن میں کام کررہی تھی۔ اس وقت انہیں ایک گھنٹے تک بچے کی دیکھ بھال کے لیے پانچ پاؤنڈ ملتے تھے۔ڈیانا نے کسی پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ ان کا تعلق اسپینسر خاندان سے ہے جو شاہی خاندان کا حصہ ہے۔

یہ کتاب ڈیانا کی وفات کے چھ ماہ بعد منظر عام پر آئی تھی اور اسے پڑھ کر قارئین کو یہ پتہ چلا کہ شہزادی بننے سے پہلے کی ڈیانا کیسی تھیں اور ان کا لوگوں کے ساتھ رویہ کیسا تھا۔

مصنفہ جو پہلی بار ڈیانا سے 1980 میں ملیں، ان کے خیال میں ڈیانا میں وہ تمام خصوصیات تھیں جو ایک اچھی ملکہ میں ہونی چاہئیں۔

4۔ دی ڈیانا کرونیکلز

یہ کتاب شہزادی ڈیانا کے انتقال کے دس برس بعد شائع ہوئی۔معروف ایڈیٹر ٹینا براؤن نے اس کتاب کے ذریعے ڈیانا اسپینسر کی زندگی کے وہ واقعات بیان کیے جو شہزادی بننے سے پہلے کی زندگی میں ان کے ساتھ پیش آئے۔

قارئین کو اس کتاب کے ذریعے پہلی بار پتہ چلتا ہے کہ شہزادی ڈیانا کے سسرالی ہی نہیں، ڈیانا اسپینسر کے میکے والوں نے بھی ان کے لیے مشکلات کھڑی کیں۔

ڈیانا کی والدہ، نانی اور ان کی سوتیلی ماں، تینوں کس طرح ان کی زندگی پر اثر انداز ہوئیں اور کیسے ان کی وجہ سے ڈیانا کو اپنی شادی شدہ زندگی میں سکون نہ ملا، یہ سب اس کتاب میں بتایا گیا ہے۔

5۔ ڈیانا: کلوزلی گارڈڈ سیکریٹ

شہزادی ڈیانا سے سب سے زیادہ قریب ان کے باڈی گارڈ کین وارف رہے جو 1987 سے 1993 تک ان کی پروٹیکشن ڈیٹیل کا حصہ تھے۔

انہوں نے سن 2002 میں 'کلوزلی گارڈڈ سیکریٹ' کے نام سے کتاب شائع کی تو قارئین کو حیرانی ہوئی کیوں کہ انہوں نے اس کتاب میں ڈیانا کو ایک عام انسان کے طور پر پیش کیا۔

چھ سال تک شہزادی ڈیانا کی دیکھ بھال کرنے والے انسپکٹر وارف نے اس کتاب میں ان کے تعلقات کے ساتھ ساتھ تنہائی میں رونے، شادی کو بچانے کی کوششوں اور سن 1992 کے کروز کے دوران ان کی اچانک گمشدگی پر بھی کھل کر بات کی۔

اس کتاب کی اشاعت کے بعد میٹروپولیٹن پولیس کے چیف نے اس پر اعتراض کیا کیوں کہ رائلٹی پروٹیکشن برانچ کے کسی بھی فرد کو اس طرح کے راز ظاہر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

6۔ آ رائل ڈیوٹی

سن 2003 میں شہزادی ڈیانا سے متعلق بٹلر پال بوریل نے بھی ایک کتاب شائع کی جس میں انہوں نے شاہی خاندان کے ساتھ گزارے اپنے دس سالوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کو بیان کیا۔

اس کتاب کے ذریعے قارئین کو کئی ایسی باتیں پتہ چلیں جو ان کے علم میں نہیں تھیں۔ جیسے شہزادی ڈیانا کا ان کے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ برتاؤ اور شاہی خاندان کی شہزادی میں عدم دلچسپی۔

پال بوریل نے اس کتاب میں شہزادی ڈیانا کی وہ باتیں بھی تحریر کیں جو بہت سے مصنفین کے علم میں بھی نہیں تھیں کیوں کہ وہ ان کے ہر کام میں ان کے ساتھ ہوتے تھے۔

ان کے خیال میں شاہی خاندان نے جس قسم کا برتاؤ شہزادی ڈیانا کے ساتھ کیا وہ ان کے شایان شان نہیں تھا۔

7۔ ڈیانا: فائنلی دی کمپلیٹ اسٹوری

سارہ بریڈفرڈ کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جنہوں نے ایسے افراد پر کتابیں لکھیں جن کی نجی زندگی کے بارے میں عام لوگوں کو علم نہیں ہوتا۔ جیسے ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوئم، سابق امریکی خاتون اول جیکی کینیڈی اور شہزادی گریس (سابق اداکارہ گریس کیلی)۔

جب سن 2007 میں انہوں نے شہزادی ڈیانا کے مرنے کے دس سال بعد ان پر کتاب لکھی تو اسے خوب پڑھا گیا۔اس کتاب میں انہوں نے ڈیانا اسپینسر سے شہزادی ڈیانا کے سفر کی درست انداز میں تصویر کشی کی۔

انہوں نے اس کتاب میں ڈیانا کی زندگی کے تمام اہم اور غیر اہم واقعات درج کیے جس کو پڑھ کر قارئین کو اندازہ ہوگا کہ ڈیانا کی زندگی آغاز سے اختتام تک کتنی مشکل تھی۔

8۔ ریممبرنگ ڈیانا: آ لائف ان فوٹوگرافس

ریمیمبرنگ ڈیانا: آ لائف ان فوٹوگرافس میں شہزادی ڈیانا کی ایک سو سے زائد تصاویر ہیں۔ اس میں سابق امریکی صدر کلنٹن،سوشل ورکر مدر ٹریسا اور موسیقار ایلٹن جان سمیت نامور افراد نے انہیں اپنے اپنے الفاظ میں یاد کیا۔

نیشنل جیوگرافک کے اشتراک سے 2017 میں شائع ہونے والی کتاب کو پرنس آف ویلز پر شائع ہونے والی سب سے خوبصورت کتاب بھی سمجھا جاتا ہے۔

اس کتاب میں ان کی بطور ایک اسکول جانے والی لڑکی، نوجوان دوشیزہ، شہزادی، والدہ اور ایک سوشل ایکٹیوسٹ کے ساتھ ساتھ بطور ایک انسان کئی یادگار تصاویر موجود ہیں۔