الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند امیدواروں کے لیے ہدایت نامہ جاری کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ایک کاغذاتِ نامزدگی کا فارم حاصل کرنے کی فیس 100 روپے ہے اور امیدوار کاغذات نامزدگی 20 سے 22 دسمبر تک جمع کرا سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار کو ناقابل واپسی 30 ہزار روپے بطور فیس جمع کرانا ہوں گے جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے فیس 20 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔
پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ آٹھ فروری 2024 مقرر ہے جس کے لیے سیاسی جماعتوں نے انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والا ایک امیدوار مختلف تجویز و تائید کنندگان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پانچ کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ امیدوار کو اس کے تجویز و تائید کنندہ کے شناختی کارڈ کی مصدقہ نقول اور ووٹر سرٹیفکیٹ بھی جمع کرانا ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے امیدوار کو ہدایت کی ہے کہ وہ کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ گزشتہ تین سال کا انکم ٹیکس ریٹرن اور پاسپورٹ کی مکمل نقل بھی منسلک کرے۔
امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کا شہری ہو اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ تک اس کی عمر 25 سال سے کم نہ ہو۔
الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی اہلیت سے متعلق کہا ہے کہ امیدوار قومی اسمبلی کی نشست کے لیے پاکستان میں کسی بھی جگہ کا ووٹر ہو سکتا ہے جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے اس کا متعلقہ صوبے سے ہونا ضروری ہے۔
SEE ALSO: بلوچستان: سیاسی ماحول کیا رخ اختیار کر رہا ہے؟اسی طرح قومی اسمبلی کے لیے خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے امیدوار کا متعلقہ صوبے کا ووٹر ہونا لازمی ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی اخراجات کے حوالے سے ہر امیدوار یا تو کسی بھی شیڈول بینک میں خصوصی اکاؤنٹ کھولے گا یا پہلے سے موجود بینک اکاؤنٹ کی تفصیل کاغذات نامزدگی میں درج کرے گا۔ علاوہ ازیں امیدوار کو کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ بینک اسٹیٹمنٹ بھی منسلک کرنا ہوگا۔
سکندر سلطان راجا کی زیرِ نگرانی انتخابات پر تحفظات
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیرِ نگرانی انتخابات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک بیان میں سپریم کورٹ بار نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں چیف الیکشن کمشنر کو گھر جانا چاہیے کیوں کہ ان کے زیرِ نگرانی شفاف انتخابات ممکن نہیں۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام ف، عوامی نیشنل پارٹی، جماعتِ اسلامی نے اپنی انتخابی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں جب کہ پیپلز پارٹی 27 دسمبر سے باقاعدہ انتخابی سرگرمیوں کا اعلان کرے گی۔ تاہم پاکستان تحریکِ انصاف کو شکوہ ہے کہ اسے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی۔
سپریم کورٹ بار نے بھی بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ انتخابات کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں، شکایات کو دور کیے بغیر محض انتخابی ٹائم لائن پر عمل کرنا استحکام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔