رسائی کے لنکس

بلوچستان: سیاسی ماحول کیا رخ اختیار کر رہا ہے؟


پاکستان کے نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹٰی اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔فوٹو اے پی
پاکستان کے نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹٰی اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔فوٹو اے پی

بلوچستان کے اہم سیاسی رہنماء اور حال ہی میں نگران وزیر داخلہ کے منصب سے مستعفی ہونے والے میر سرفراز بگٹی نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے یہ اعلان تربت میں پیپلز پارٹی کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس میں شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی موجود تھے۔

سرفراز بگٹی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ڈیرہ بگٹی سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لیں گے۔ وہ اس سے قبل بھی ڈیرہ بگٹی سے کامیاب ہوکر صوبائی وزیر داخلہ رہے ہیں۔


عام انتخابات میں حصہ لینے کی غرض سے سرفراز بگٹی نگران وفاقی کابینہ سے جمعہ کو مستعفی ہوگئے تھے۔ سرفراز بگٹی نے اس سال 17 اگست کو نگران وفاقی وزیر داخلہ کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں۔

اسٹیبلیشمنٹ کے قریب تصور کئے جانے والے سرفراز بگٹی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کو سیاسی حلقوں میں اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔

بالاچ بلوچ اور دیگر کی ہلاکت کے خلاف جاری لانگ مارچ کوئٹہ سے اسلام آباد روانہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:21 0:00


یاد رہے کہ اس سے قبل اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والی بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے متعدد رہنماؤں نے کوئٹہ میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔

بی اے پی رہنماؤں کی مسلم لیگ ن میں شمولیت پر پیپلز پارٹی نے تنقید کی تھی اور بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ شاید نواز شریف کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ لاہور میں مسلم لیگ ن کو مشکلات کا سامنا ہے، اس لیے وہ ایک دو سیٹوں کے پیچھے دوسرے صوبے جانے کی تکلیف اٹھا رہے ہیں۔


مبصرین کا کہنا ہے کہ سرفراز بگٹی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پیپلز پارٹی کے لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے میں نرمی آگئی ہے۔


بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی تجزیہ کار شہزادہ ذولفقار کہتے ہیں کہ سرفراز بگٹی اسٹیبلشمٹ کے حامی سیاست دانوں کے مرکزی رہنماء کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان کا اچانک پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان ان کے لئے حیران کن ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو بھی بلوچستان میں خاطر خواہ حصہ دیا جا رہا ہے اور غالباً اسی بنا پر بلاول بھٹو کے لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے بھی سنائی دینا بند ہوگئے ہیں۔


وہ کہتے ہیں کہ سرفراز بگٹی پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے اور ان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد دیگر الیکٹیبلز بھی اسی طرف جائیں گے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی شاہد رند کہتے ہیں کہ بلوچستان کے حوالے سے آصف زرداری کی سیاسی بساط کی سب سے بڑی چال سرفراز بگٹی ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرفراز بگٹی کی شمولیت نے بلوچستان میں ہوا کے رخ کو ایک بار پھر سے پیپلز پارٹی کی جانب موڑ دیا ہے اور آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی بلوچستان میں بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ سرفراز بگٹی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ ان کے والد 1988 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ بھی لیا۔

شاہد رند کہتے ہیں کہ سرفراز بگٹی نے قوم پرست سیاست کی نفی کرتے ہوئے خود کو ہمیشہ ریاست کے بیانیے کے ساتھ کھڑا کیا ہے اور تربت میں ان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت قوم پرست جماعتوں کے لئے بہت معنی رکھتی ہے۔


وہ کہتے ہیں کہ تربت بلوچستان میں قوم پرست سیاست کے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس مقام پر آصف زرداری کے ہمراہ سرفراز بگٹی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت قوم پرست جماعتوں کو ایک پیغام بھی ہے۔

سرفراز بگٹی نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تربت سے قوم پرستی کی سیاست کے خاتمے کا آغاز کر رہے ہیں اور ہمارا مقصد پاکستان کو محفوظ، پر امن، خوشحال بنانا ہے۔

بلوچستان کا ممکنہ سیاسی نقشہ کیا بنے گا؟

ایسے میں جب قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ قوم پرست جماعتیں بھی بلوچستان کے انتخابات میں سرگرمی سے حصہ لے رہی ہیں تو الیکشن کے بعد کیا صورتحال بنے گی؟

اس بارے میں تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ہی صوبے کی بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئیں گی البتہ حکومت سازی کے حوالے سے مقامی جماعتوں کی حمایت درکار ہوسکتی ہے۔

شہزادہ ذولفقار کہتے ہیں کہ سرفراز بگٹی کی شمولیت کے بعد مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے رہنماء یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی جماعت عام انتخابات میں صوبے کی اکثریتی نشستیں حاصل کرنے والی جماعت بن کے سامنے آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل نواز شریف کے دورہ کوئٹہ میں جب الیکٹبلز نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کی تو خیال یہ تھا کہ مسلم لیگ(ن) آئندہ انتخابات کے بعد صوبے میں حکومت بنائے گی۔

شہزادہ ذولفقار کہتے ہیں آنے والے دنوں میں بلوچستان میں مزید پیش رفت سامنے آئے گی جس کے بعد ہی انتخابات کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آئندہ اتحادی حکومت بنتی نظر آ رہی ہے۔ کون سی جماعت لیڈ کرے گی یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) جبکہ سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی حکومت بنائے گی۔

شاہد رند کہتے ہیں کہ یہ واضع ہے کہ بلوچستان میں آئندہ حکومت اتحادی حکومت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ کون سی جماعت حکومت میں ہوگی اور کون سی حزب اختلاف میں اس کا فیصلہ 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد ہی ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات قوم پرست جماعتوں کے لئے خاصے مشکل دکھائی دیتے ہیں جو قومی جماعتوں کے ساتھ کسی اتحاد کی تشکیل کی کوشش میں ہیں۔

بی اے پی کا مستقبل کیا ہوگا؟

پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کوئی نیا معاملہ نہیں تاہم ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں گذشتہ دور میں حکومت بنانے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کا مستقبل کیا ہوگا۔

خیال رہے کہ بی اے پی ایک ایسی جماعت ہے جس نے 2018 کے الیکشن سے قبل اچانک نمودار ہو کر صوبے میں نون لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور الیکشن کے بعد بلوچستان میں تحریک انصاف کے ساتھ اتحادی حکومت قائم کی۔

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور سرفراز بگٹی دونوں بی اے پی سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔

شہزادہ ذولفقار کہتے ہیں کہ بی اے پی سیاسی جماعت کے طور پر رہے گی اور اپنی حیثیت کے حساب سے آئندہ حکومت میں اسے حصہ بھی مل جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے لئے پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ نون کسی کے ساتھ بھی اتحاد میں جانے میں کوئی مشکل نہیں ہے اور وہ انتخابات کے بعد کسی کے ساتھ بھی حکومت میں شامل ہوجائے گی۔

شاہد رند کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں الیکٹیبلز کی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں شمولیت سے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان عوامی پارٹی کو ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت بنانے میں بھی بی اے پی کا کردار تھا اور حکومت کے خاتمے میں بھی اس جماعت کا عمل رہا۔

وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی پر تنقید بھی سب ہی سیاسی قوتوں نے کی اور اب سب سیاسی جماعتیں بی اے پی سے مستفید بھی ہو رہی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG