کھارادار کی رہائشی سمیرا کریم جناح یونیورسٹی فار ویمن میں ماسٹرز کی طالبہ ہیں اور گزشتہ چار سال سے روزانہ اپنے گھر سے بسوں اور رکشوں میں سفر کر کے یونیورسٹی جانا ان کا معمول ہے۔
چند روز قبل انہیں اس وقت حیرت کا سامنا ہوا جب ان کی نظر میری ویدر ٹاور اسٹاپ پر کھڑی سبز رنگ کی بڑی بس پر پڑی۔ مزید غور سے دیکھا تو بس پر انگریزی میں عبارت تحریر تھی جس کا مطلب تھا۔ " کراچی کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا۔"
یہ حیرت صرف سمیرا ہی کو نہیں ہوئی بلکہ کراچی کے ایسے ہزاروں شہریوں کو ہوئی جو اس روٹ پر روزانہ تباہ حال بسوں، کوچز اور ان کی چھتوں اور رکشوں پر چلچلاتی دھوپ میں سفر کرتے ہیں۔
نجی کمپنی 'سفائر' کی جانب سے ایسی 10 بسیں چین سے منگوائی گئی ہیں جن میں سے فی الوقت ایک آزمائشی بنیادوں پر سہراب گوٹھ میں واقع کراچی بس ٹرمینل سے میری ویدر ٹاور تک چلائی جارہی ہے۔
اگرچہ کرونا کی وجہ سے ابھی بس میں گنجائش سے کم مسافروں ہی کو سوار کیا جارہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اس میں سفر کرنے والے اسے آرام دہ اور پرسکون قرار دے رہے ہیں۔
اس سے پہلے لائی گئی بسوں کا کیا حال ہوا؟
لیکن بجلی سے چلنے والی ان بسوں سے قبل بھی کراچی میں کئی ایسی جدید بسیں متعارف کرائی جاتی رہی ہیں۔ ان میں 90 کی دہائی میں کامیابی سے چلنے والی کے ٹی سی (کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن) کی سیکڑوں بسیں بھی شامل ہیں۔
سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان کے دور میں متعارف کرائی گئی میٹرو بس سروس ہو یا گرین بسز اس کے بعد 2007 میں ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کے دور کے اواخر میں 50 بسیں لائی گئیں۔ مگر آہستہ آہستہ یہ بسیں سڑکوں سے غائب ہوتی گئیں اور بالآخر یہ تمام بسیں بھی بس ٹرمینلز پر کھلے آسمان تلے گلتی سڑتی تباہی کا شکار ہو گئیں۔
اس کے بعد کچھ عرصے کے لیے شہر میں 'یو ٹی ایس' بسز اور پھر 2018 کے عام انتخابات سے چند ماہ قبل 10 بسوں پر مشتمل پیپلز بس سروسز بھی بڑی دھوم دھام سے شروع کی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ ان بسوں کی تعداد چند ماہ میں 50 تک لائی جائے گی لیکن جو چل رہی تھیں وہ بھی رفتہ رفتہ بند ہو گئیں۔
ماضی میں شہر میں لائی گئی بسیں لمبے عرصے تک کیوں نہ چل پائیں؟
کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں 14 سال تک ماس ٹرانزٹ ڈپارٹمنٹ اور محکمہ ٹرانسپورٹ میں خدمات انجام دینے والے ایک سرکاری افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ شہر میں جس قدر بھی نئی بسیں لائی گئیں وہ کریڈٹ لینے اور سیاسی مخالفت کے باعث جان بوجھ کر تباہ کی گئیں۔
سرکاری افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں شہر میں متعارف کرائی گئی بڑی گرین بسز اس وقت کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے تحت چلائی جاتی تھیں جب کہ میٹرو بس پرائیویٹ کانٹریکٹرز کو دی گئیں۔
اُن کے بقول ان بسوں سے سٹی گورنمنٹ کو قابلِ ذکر آمدنی ہوتی تھی جو ان کی مرمت کے اخراجات کے لیے کافی تھیں مگر 2005 میں شہری حکومت میں تبدیلی کے بعد ان بسوں کو کنٹریکٹ پر سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے کانٹریکٹرز کو دیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ حیرت انگیز طور پر ان بسوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری سٹی گورنمنٹ نے اپنے پاس ہی رکھی۔ نتیجتاً من مانے افراد نے ان سے دو سالوں میں کروڑوں روپے کمائے مگر مرمت کے لیے قلیل بجٹ مختص کرنے کی وجہ سے ان میں سے اکثر خراب ہو گئیں۔
ریٹائرڈ افسر کے مطابق 2007 میں لائی گئیں سی این جی بسوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ 25 کروڑ روپے کی خطیر رقم سے منگوائی گئیں 50 بسیں صرف چند سال چلیں۔ جس کے بعد سی این جی کی کمی اور پھر مرمت کے لیے فنڈز کی عدم ادائیگی اور سب سے بڑھ کر بلدیاتی نظام ہی ختم ہو جانے کے بعد یہ بسیں سرجانی اور اورنگی کے بس ٹرمینلز پر کھڑی کھڑی گل سڑ گئیں اور یوں کراچی کے شہری ایک بار پھر منی بسز، کوچز اور رکشوں پر سفر کرنے پر مجبور ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ 2013 میں متعارف کرائے گئے نئے بلدیاتی نظام میں کے ایم سی (کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن) سے ٹرانسپورٹ کا محکمہ ختم کر کے اب شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام صوبائی حکومت کے پاس آ گیا ہے۔
'ناکامی کی اصل وجہ بیڈ گورننس'
شہری امور انفراسٹرکچر اور اس سے ملتے جلتے مسائل پر تحقیق کرنے والے ادارے کراچی اربن لیب سے منسلک سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ محمد توحید کا کہنا ہے کہ کراچی میں ماضی میں جتنی بھی بسیں متعارف کرائی گئیں ان کی ناکامی کی اصل وجہ بیڈ گورننس ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ منصوبے بلدیاتی حکومت کے ماتحت تھے اور کچھ صوبائی حکومت کے ماتحت رہے۔ ان دونوں حکومتوں کے درمیان تناؤ کی وجہ سے اس کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑا۔
محمد توحید کے مطابق سندھ ماس ٹرانزٹ ڈپارٹمنٹ جو کئی ناموں سے ماضی میں کام کرتا رہا، وہ ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے میں کبھی بھی فعال ہی نہیں رہا جب کہ حکومت کی جانب سے جو منصوبے بھی متعارف کرائے گئے وہ پائیدار ثابت نہیں ہوئے۔
محمد توحید کا کہنا ہے کہ اگرچہ الیکٹرک بس چلانا ایک بہتر اقدام تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے قبل کوئی تحقیق کی گئی ہے کہ کن روٹس پر کتنی بسیں چلائی جائیں گی اور کس روٹ پر کتنے مسافر ہیں؟
اُں کے بقول مسئلہ یہ ہے کہ عجلت میں منصوبے شروع کیے جاتے ہیں، فوٹو سیشن کروائے جاتے ہیں اور پھر حکومت ایک خاص مدت کے بعد سبسڈی ختم کر دیتی ہے اور یوں یہ منصوبے بھی ٹھپ ہو جاتے ہیں اور پھر کوئی نیا منصوبہ آ جاتا ہے۔
'الیکٹرک بسوں کے لیے جامع بزنس پلان ترتیب دیا گیا ہے'
الیکٹرک بس منصوبہ شروع کرنے والی نجی کمپنی 'سفائر' کے بزنس ڈویلپمنٹ آفیسر طلحہ خان کہتے ہیں کہ اس بس سروس کو لانچ کرنے سے قبل باقاعدہ بزنس پلان ترتیب دیا گیا ہے۔
اُن کے بقول اس کا فنانشل ماڈل جامع اور پائیدار ہے جس کے تحت بس سے حاصل کردہ پیسہ ہی بس کے اخراجات پورے کرنے کے ساتھ کمپنی کو بہتر منافع بھی دے گا۔
انہوں نے بتایا کہ بہت سے آپریٹرز یہ بس چلانے کے لیے تیار ہیں۔ ابھی چوں کہ یہ بجلی سے چلنے والی بس ہے تو ایک تو یہ ماحول دوست ہے، اس سے آلودگی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے انجن سے کوئی آواز پیدا ہوتی ہے جب کہ اس کی باڈی المونیم سے بنی ہوئی ہے جس سے یہ زنگ محفوظ رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ کمپنی کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو سہولت فراہم کی جائے جب کہ اس کی مرمت پر اخراجات بھی نسبتاً بہت کم ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
طلحہ خان کا کہنا ہے کہ آزمائشی بنیادوں پر چلانے کے بعد ان کی تعداد اسی روٹ پر 10 کی جائے گی جس کے بعد اس سال کے اختتام پر شہر بھر میں بجلی سے چلنے والی ان بسوں کی تعداد 100 تک لائی جائے گی۔
طلحہ خان کے مطابق اس وقت بس کا کرایہ فی اسٹاپ 10 روپے رکھا گیا ہے جو اُن کے خیال میں بہت مناسب ہے۔
صوبائی حکومت کا مؤقف کیا ہے؟
وزیر ٹرانسپورٹ سندھ سید اویس قادر شاہ کا کہنا ہے کہ کم وسائل کے باوجود حکومت کی کوشش ہے کہ صوبے بالخصوص کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کیا جائے تاکہ شہریوں کے لیے بہتر اور آرام دہ سفر ممکن بنایا جا سکے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں جدید ٹرانسپورٹ کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے حکومت ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے جب کہ شہر میں گرین لائن اور یلو لائن تکمیل کے مراحل میں ہیں اور ریڈ لائن بس ریپڈ سسٹم پر بھی جلد کام کا آغاز کیا جائے گا۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر رواں دواں گاڑیوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا حصہ محض ساڑھے چار فی صد رہ گیا ہے جو زیادہ سے زیادہ 42 فی صد مسافروں کی ضروریات ہی پوری کر سکتا ہے۔
شہریوں کی اکثریت آمد و رفت کے لیے پرائیویٹ گاڑیوں کا استعمال کرتی ہے جو شہر کی مجموعی ٹریفک کا تو 36 فی صد ہے لیکن اس سے صرف 21 فی صد مسافروں کی ضروریات ہی پوری ہوتی ہیں۔
کراچی میں رکشوں اور ٹیکسیوں کی تعداد شہر کی کُل ٹریفک کا 10 فی صد بتائی جاتی ہے جو آٹھ فی صد مسافروں کو سفری سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ بسوں کی تعداد 5000 سے بھی کم ہے جو 56 لاکھ مسافروں کو سفر کی سہولت مہیا کرتی ہیں۔ یہ تعداد روزانہ سفر کرنے والوں کا 42 فی صد ہے۔اس طرح کراچی میں ایک بس کے حصے میں یومیہ اوسطاً 250 سے زائد مسافر آتے ہیں۔