پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کے روز ملک کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی سرگرمیوں کے مرکز کراچی کے پیچیدہ اور اہم مسائل کے حل کے لئے اجلاس کی صدارت کی۔ جس میں کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیر اعظم نے واضح ہدایت دی کہ کراچی میں تجاوزات ہٹانے سے پہلے وہاں کے مستحق مکینوں کیلئے پیشگی متبادل انتظامات کو یقینی بنایا جائے۔ اسی طرح کراچی کو پانی فراہم کرنے کے منصوبے' کی استعداد اور افادیت بڑھانے کی سفارشات مرتب کرنے کیلئے وزارتِ منصوبہ بندی کے تحت تکنیکی کمیٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت 100 سے زائد منصوبوں کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہےجو 1117 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہونگے۔ ان منصوبوں کو تکمیلی مراحل کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
اجلاس میں جہاں وفاقی وزراء فیصل واوڈا، وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور صوبہ سندھ کے چیف سیکریٹری نے شرکت کی، وہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ملک کی اعلیٰ ترین انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید بھی شریک ہوئے۔
"اعلیٰ فوجی قیادت کی شرکت فیصلہ سازی میں اہم کردار اور دلچسپی کی عکاس ہے"
کئی سیاسی مبصرین سیاسی اجلاس میں اعلیٰ فوجی قیادت کی شرکت کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ اُن کے خیال میں فوجی قیادت کی شرکت، فوج کی اس بارے میں دلچسپی اور فیصلہ سازی میں اس کے کردار کی عکاسی کرتی ہے۔
بعض سیاسی مبصرین کے مطابق اجلاس میں اعلی فوجی قیادت کی شرکت کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ فوج اور سویلین قیادت مسائل کے حل کے لئے ایک ساتھ ہیں۔ سیاسی مبصر ڈاکٹر توصیف عالم کے مطابق اس سے فوج کی فیصلہ سازی میں اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ اقدام حزب اختلاف کے لیڈر نواز شریف کے الزامات کو تقویت دیتے ہیں۔
ڈاکٹر توصیف احمد کے مطابق کراچی میں ترقیاتی کاموں اور اس جیسے دیگر معاملات میں فوج کی شمولیت سے فائدہ نہیں ہو گا بلکہ ان کی پیشہ وارانہ سرگرمیاں بھی متاثر ہوں گی اور یہ جمہوری حکومت کے لئے بھی کوئی اچھی علامت نہیں۔
"کراچی کے مسائل حقیقت کا ادراک کئے بغیر کیسے حل ہوسکتے ہیں؟ "
سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی اور بیوروکریٹ فہیم زمان کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی کراچی سے متعلق اجلاس میں شرکت ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی نشاندہی کرتی ہے۔ جب کہ اس کا دوسرا مقصد یہ بھی ظاہر کرنا ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لئے فوجی اور سول قیادت ایک ہی صفحے پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ بھی ہے کہ آیا وہ کراچی کے انفراسٹرکچر کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں یا کراچی کے حالات کو بھی بہتر کرنا چاہتے ہیں؟ ان کے خیال میں یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔
مبصرین نے کا کہنا ہے کہ اس سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ شہر کے دہائیوں پرانے مسائل کو جنگی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ ڈاکٹر توصیف احمد کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لئے جنگی بنیادوں پرکام کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کے مطابق اس کا اصل طریقہ یہ ہے کہ یہاں سویلین انتظامیہ کی مضبوط حکومت ہونی چائیے۔ بلدیاتی ادارے مالی اور انتظامی طور پر مکمل خود مختار ہوں۔ تبھی یہاں کے مسائل حل ہونے کی کوئی توقع کی جا سکتی ہے۔
سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی اور بیوروکریٹ فہیم زمان کے مطابق شہر کے مسائل کے حل کے لئے مسائل کی نوعیت کو سجھنا ضروری ہے۔ قابل اعتبار ڈیٹا اور اس کے ساتھ پلان پر عمل درآمد کے لئے قابل ماہرین درکار ہیں۔
فہیم زمان کے خیال میں 2017 کی مردم شماری میں کراچی کی بتائی گئی آبادی اس کی اصل آبادی سے بہت کم ہے۔ ان کے خیال میں غلط اعداد و شمار پر کوئی بھی پلاننگ کی جائے گی تو اس کا نتیجہ مزید مسائل کی صورت ہی میں نکلے گا۔
روان سال اگست میں کراچی میں ریکارڈ توڑ بارشوں کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی کا دورہ کر کے یہاں کے نقصانات پر بریفینگ لی تھی۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جو منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں ان میں فوج کی جانب سے ہر ممکن مدد کی جائے گی۔
کراچی پیکیج کے تحت کون سے مسائل حل کئے جانے کے وعدے کئے گئے تھے؟
ستمبر میں وفاقی اور صوبائی حکومت نے مل کر کراچی کے مسائل کے حل کے لیے 1100 ارب روپے کے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت کی ایک کوآرڈینیشن کمیٹی بھی بنائی گئی تھی اور اس کے کراچی اور اسلام آباد میں متعدد اجلاس ہو چکے ہیں۔
ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان نے پیکیج کو تاریخی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اس میں صوبائی اور وفاقی حکومت مل کر حصہ ڈالیں گے۔ اس پیکیج کے تحت پانی، نالوں پر قائم تجاوزات کا خاتمہ، نالوں پر آباد لوگوں کی دوسری جگہوں پر منتقلی اور آبادکاری، سیوریج کے نظام اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو بہتر بنانا، ٹرانسپورٹ کے مسائل کا حل جس میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور بی آر ٹی کے دیگر منصوبے شامل ہیں۔
وزیر اعظم کے مطابق ترقیاتی کاموں اور ان کی رفتار پر نظر رکھنے کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومت کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے گی، جب کہ ان منصوبوں کی تکمیل میں فوج کا اہم کردار ہو گا۔ نالوں کی صفائی، تجاوزات ہٹانے کا کام فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او کو سونپا گیا تھا جب کہ صوبائی حکومت نے سرکلر ریلوے کے ٹریک پر آنے والی سڑکوں کو انڈر پاس یا فلائی اوور سے گزارنے کے لئے ٹھیکے بھی فوج ہی کو دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
سارے معاملے میں صوبائی حکومت کہاں کھڑی ہے؟
شروع میں کراچی سے متعلق ٹرانسفارمیشن پلان تیار کرنے پر صوبائی حکومت کو اعتماد میں نہ لینے پر سندھ میں برسر اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے شدید احتجاج کیا تھا۔ صوبائی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ قانون اور آئین کے مطابق بہت سارے کام صوبائی حکومت کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ لیکن ستمبر میں وفاقی اور صوبائی حکومت مل کر کراچی کی ترقی کے لئے کام کرنے پر متفق ہو گئے تھے جس کے بعد صوبائی اور وفاقی حکومت کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
تاہم سیاسی مبصرین کےمطابق پیپلز پارٹی نے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان میں فوج کے اہم کردار کی وجہ سے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کی حامی بھری ہے۔