پولیس ذرائع کے مطابق فائرنگ کا واقعہ پاک، افغان سرحد کے قریب کنج علیزئی کے علاقے میں پیش آیا۔ طوری قبائل پر فائرنگ کے بعد علاقے میں حالات پھر کشیدہ ہو گئے ہیں: مقامی صحافی علی افضال افغانستان سے ملحقہ کرم کے اس قبائلی ضلع میں اہلِ سنت اور اہل تشیع مکتبہ فکر کے قبائل آباد ہیں۔ اگست اور ستمبر میں بھی دونوں قبائل کے درمیان ہونے والے تصادم میں درجنوں افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔ |
پشاور -- افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلع کرم میں فائرنگ کے واقعے میں کم از کم 11 افراد ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔
سرکاری طور پر اس واقعے کے بارے میں تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا مگر انتظامی شہر پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے صحافی علی افضال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ واقعہ پاک، افغان سرحد کے قریب کنج علیزئی کے علاقے میں پیش آیا جہاں مسلح افراد نے ایک پہاڑی علاقے اور سڑک پر موجود لوگوں پر فائرنگ کی۔
کرم کے ضلعی پولیس افسر کے دفتر میں موجود اہلکاروں نے میڈیا کو بتایا کہ فائرنگ کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور زخمیوں اور لاشوں کو اسپتال منتقل کیا گیا۔
علی افضال کا کہنا ہے کہ طوری قبائل پر فائرنگ کے بعد علاقے میں حالات پھر کشیدہ ہو گئے ہیں جب کہ پولیس آمدورفت اور حالات معمول پر لانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
افغانستان سے ملحقہ کرم کے اس قبائلی ضلع میں اہلِ سنت اور اہل تشیع مکتبہ فکر کے قبائل آباد ہیں اور دونوں فرقوں کے درمیان زمینی تنازعات کشیدگی کا باعث بنتے رہے ہیں۔
چند سال قبل خیبر پختونخوا صوبے میں ضم ہونے والا قبائلی ضلع کرم ملکی سطح پر فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے حساس خطوں میں سے ایک ہے۔ کرم کی سرحدیں افغانستان کے صوبوں خوست ،ننگرہار اور پکتیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی اضلاع خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان سے ملتی ہیں۔
قبائلی علاقوں میں کرم وہ پہلا علاقہ ہے جہاں پر سب سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر سنی اور شیعہ آبادی کے درمیان بدترین لڑائیوں کی ابتدا ہوئی۔ خیبر پختونخوا صوبے کا یہ واحد ضلع ہے جہاں شیعہ آبادی بڑی تعداد میں آباد ہے۔
SEE ALSO: کرم میں شیعہ سنی تصادم؛ وہ لڑائی جو برسوں سے جانیں نگل رہی ہےکرم میں اگست سے لے کر اب تک مبینہ فرقہ وارانہ کشیدگی کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ ستمبر میں لگ بھگ ایک ہفتے تک جاری رہنے والے مسلح تصادم کے بعد جنگ بندی ہوئی تھی۔
ستمبر کے دوران اہل تشیع اور سنی قبائل کے درمیان تصادم میں 45 افراد ہلاک اور 90 زخمی ہوئے تھے جب کہ اگست میں ہونے والے تصادم میں 90 افراد ہلاک اور 170 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔