سوشل میڈیا کمپنی ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک، مصنوعی ذہانت کے ماہرین اور کچھ ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان نے مطالبہ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے مزید طاقت ور اور مؤثر نظام بنانے کو اس وقت تک ترک کر دینا چاہیے جب تک اس کے محفوظ ہونے کو ممکن نہیں بنا لیا جاتا۔
یہ مطالبہ لگ بھگ ایک ہزار ماہرین اور ٹیکنالوجی کمپنیوں سے وابستہ افراد کے دستخط شدہ ایک خط کے ذریعے سامنے آیا۔ ایلون مسک کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کمپنی ’ایپل‘ کے شریک اسٹیو وزنائک کے دستخط بھی موجود ہیں۔
یہ مطالبہ ایک ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں قائم مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ اپنے چیٹ بوٹ ’چیٹ جی پی ٹی فور‘ کا اجرا کر چکی ہے۔
اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ اس کا چیٹ جی پی ٹی فور اس سے قبل آنے والے ورژن سے کئی گنا زیادہ طاقت ور ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے بڑے تجربات کو روک دینا چاہیے۔ ایسے مصنوعی ذہانت کے پروگرام جو انسانوں کی ذہانت سے مسابقت رکھتے ہوں اس سے معاشرے اور انسانیت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
اس خط میں تجویز دی گئی ہے کہ مصنوعی ذہانت کے طاقت ور نظام اس وقت بنائے جانے چاہیئں جب یہ اعتماد ہو کہ اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے جب کہ اس سے جڑے خطرات کو بھی قابو کیا جا سکتا ہو۔
واضح رہے کہ چیٹ جی پی ٹی بنانے والے اسٹارٹ اپ ’اوپن اے آئی‘ میں ابتدا میں ایلون مسک نے بھی سرمایہ لگایا تھا۔
SEE ALSO: اوپن اے آئی نے زیادہ طاقت ور جی پی ٹی 4 ریلیز کردیاایلون مسک الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹیسلا کے بھی مالک ہیں۔ انہوں نے ان گاڑیوں کے لیے بھی مصنوعی ذہانت کے پروگرام متعارف کرائے ہیں۔
جس ادارے ’فیوچر آف لائف انسٹی ٹیوٹ‘ نے یہ خط ترتیب دیا ہے جس پر ایک ہزار افراد کے دستخط ہیں، اس کے لیے مالی معاونت ایلون مسک کرتے ہیں۔ اس خط پر اوپن اے آئی کی مسابقت میں قائم دیگر مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی کمپنیوں کے مالکان کے بھی دستخط ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی لیبارٹریز کو فوری طور پر چھ ماہ کے لیے ہر قسم کی تحقیق کو روک دینا چاہیے۔
اس خط میں حکومت سے بھی کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خط کے مطابق ان چھ ماہ میں مصنوعی ذہانت سے متعلق قواعد بنانے، اس کے نظم وضبط کا طریقۂ کار کے ساتھ ساتھ اس طرح کی تحقیق کی جائے جس سے مصنوعی ذہانت مزید مؤثر، محفوظ اور قابل اعتماد ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس خط میں اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی فور کے خطرات سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا۔
اس خط پر نیو یارک یونیورسٹی کے محقق گرے میکیور کے بھی دستخط ہیں جن کا ایک طویل عرصے سے مؤقف رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے چیٹ بوٹس سے متعلق مؤقف رہا ہے کہ یہ زیادہ جھوٹ بولنے والے نظام ہیں اور تیزی سے غلط معلومات پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر بنایا گیا سافٹ ویئر 'چیٹ جی پی ٹی' جہاں دنیا بھر میں دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے تو وہیں اس کے بارے میں بہت سے تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ بعض افراد کو خدشہ ہے کہ اس کے ذریعے ریسرچ پیپرز، مضامین اور ادبی تحریروں وغیرہ کے سرقے یا جعل سازی کی راہ بھی کھل جائے گی۔
مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والی امریکی کمپنی 'اوپن اے آئی' نے 'چیٹ جی پی ٹی' کے نام سے نومبر میں ایک سافٹ ویئر متعارف کرایا تھا جو 'گوگل' کی طرز پر صارفین کے سوالات کے جوابات دیتا ہے۔
ٹیکنالوجی کمپنی گوگل نے پیر کو مصنوعی ذہانت سے چلنے والا اپنا چیٹ بوٹ متعارف کرا دیا ہے۔ اس چیٹ بوٹ کا نام 'بارڈ' رکھا گیا ہے۔
SEE ALSO: گوگل کے چیٹ بوٹ 'بارڈ' کی ایک غلطی پر کمپنی کو 100 ارب ڈالر کا نقصاندوسری جانب مائیکروسافٹ نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ اوپن اے آئی کے میدان میں مزید سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس سے مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایسی دوڑ شروع ہو جائے گی جو اس سے پہلے کمپیوٹرز، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے میدان میں مسابقت کے دوران دیکھنے میں آئی تھی۔