گزشتہ روز یعنی چار جون کو سندھ کے شہر لاڑکانہ میں درجہ حرارت غیر معمولی طور پر زیادہ تھا یعنی 50 ڈگری سینٹی گریڈ۔ جمعرات کو جبکہ دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا پاکستان کے بہت سے شہروں میں دن بھر بلا کی گرمی پڑتی رہی
کراچی —
پاکستان سے مون سون کا سیزن روٹھ گیا ہے، جس کے سبب، اس نے 100کلومیٹر کا فاصلہ بڑھا لیا ہے۔ محکمہ موسمیات سندھ کے چیف میٹرولوجسٹ اور ماہر ماحولیات توصیف عالم کا کہنا ہے اگر اب بھی ماحولیات سے بے اعتنائی برتنا بند نہ ہوئی تو پاکستان میں ہر طرف پیاس اگے گی۔
بقول اُن کے، ’پاکستان میں موسم مشرقی سرحدوں (یعنی بھارت سے ہوتا ہوا) پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور ویسٹ (افغانستان ) کی جانب چلاجاتا ہے اور جاتے جاتے ملک کے بالائی علاقوں پر برستا جاتا ہے۔ لیکن، موسمی تغیرات کے سبب اب یہی مون سون 100کلومیٹر ویسٹ میں شفٹ ہوگیا ہے، جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے بالائی علاقوں (لاہور، اسلام آباد، اپر سندھ، نارتھ ویسٹ بلوچستان، جعفر آباد وغیرہ) میں بارشوں میں کمی واقع ہوگی۔۔۔یہ موسمی تبدیلی ہے اور پاکستان اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہوگا۔‘
عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی بات چیت میں توصیف عالم کا کہنا تھا کہ ’ملک کے بالائی علاقوں میں بارشیں کم ہونے کا سیدھا سادہ سا مطلب یہاں درجہ حرارت یا گرمی میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہے۔ گزشتہ روز یعنی چار جون کو سندھ کے شہر لاڑکانہ میں درجہ حرارت غیر معمولی طور پر زیادہ تھا یعنی 50 ڈگری سینٹی گریڈ۔ اسی طرح ’موہن جو دڑو‘ کا درجہ حرارت بھی49 ڈگری تھا۔ آج یعنی جمعرات کو جبکہ دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا، پاکستان کے بہت سے شہروں میں دن بھر بلاکی گرمی پڑتی رہی۔
توصیف عالم کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’پاکستان میں مون سون جولائی میں شروع اور ستمبر میں ختم ہوتا ہے۔ لیکن، گزشتہ سال جولائی اور اگست کے مہینوں میں موسم خشک رہا جبکہ غالباً 2ستمبر سے 6ستمبر 2013تک کے درمیان شکارپور، موہن جو دڑو، جیکب آباد اور بلوچستان کے کچھ علاقوں خاص کر جعفر آباد، جھل مگسی اور نصیر آباد میں جو تیز بارشیں ہوئیں وہ بھی غیر معمولی موسمی تغیرات کی جانب واضح اشارہ ہیں کیوں کہ مذکورہ مدت میں یہاں بارشیں ہوتی ہی نہیں۔‘
بارشوں کا نظام بگڑ رہا ہے
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان میں بارشوں کا نظام بگڑ رہا ہے۔ جہاں بارشیں پہلے بہت کم یا بالکل نہیں ہوتی تھیں اب وہاں غیر معمولی بارشیں ہو رہی ہیں اور بار بار ہو رہی ہیں، جبکہ جہاں بارشیں معمول تھیں وہاں خشکی چھائی ہوئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ماحولیات سے بے خبری، خاموش موت کو دستک ہے
’انوائرومنٹل پروٹیکیشن ایجنسی‘ (ای پی اے) سے وابستہ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی مسائل سے حکومتی اور عوامی بے خبری، خاموش موت کو دستک دینے کے مترادف ہے۔ حکام کی ماحولیات پر مسلسل عدم توجہ کے باعث پاکستان کا شمار دنیا کی غیر سنجیدہ حکومتوں میں ہوتا ہے۔
’ای پی اے‘ کے ماہرین ڈاکٹر پرویز عامر، شفیق کاکاخیل اور ڈاکٹر جاوید چشتی نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پچھلے بجٹ میں ماحولیات کیلئے 54 ملین روپے مختص تھے جبکہ موجودہ بجٹ میں یہ رقم کم کرکے صرف 20 ملین روپے کردی گئی ہے حالانکہ یہاں ماحولیاتی مسائل دن دگنی اور رات چوگنی رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔
ان کے بقول، ’پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں وفاقی ماحولیات کی وزارت نہیں ہے جبکہ ماحولیات سے متعلق ادارے کلائمٹ چینج ڈویژن صوبائی انوائرمنٹل ایجنسیز، اوشنو گرافی، وائلڈ لائف، محکمہ جنگلات، زولوجیکل سروے، سپارکو کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں اور نہ ہی ان اداروں کے درمیان کسی قسم کی معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے‘۔
عوامی بے خبری
دیگر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں عوام بھی ماحولیاتی نقصان سے بے خبر ہے اور وہ آگاہی نا ہونے کے سبب ماحول کو بگاڑ رہی ہے۔ کوڑے کرکٹ یا کچرے کو آگ لگانا قانونا ً جرم ہے لیکن بہت ہی کم لوگوں کو اس کا علم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچرے میں جب چاہے اور جہاں چاہے آگ لگادی جاتی ہے۔
ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ عوام آگاہی نہیں رکھتی اور جگہ جگہ کچرا کنڈیاں بنادی جاتی ہیں۔ اسپتال، گھروں ، فیکٹریوں اور دیگر جگہوں کا انتہائی خطرناک کوڑا سرعام جلادی جاتا ہے۔ حالانکہ، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے دھویں سے ایک دو، نہیں متعدد خطرناک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
اکثر لوگ لاپروائی اختیار کرتے ہوئے گاڑیوں کی ٹوئنگ تک نہیں کراتے جس سے وہ زیادہ دھواں دینے لگتی ہیں۔ اس دھویں سے ناصرف انسانوں کا دم گھونٹ رہا ہے بلکہ اوزن میں بھی شگاف پڑگیا ہے۔ اسی سبب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سورج کی حدت بڑھ رہی ہے، گلیشیر پگھل رہے ہیں، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہورہا ہے، بارشوں کا نظام بگڑ رہا ہے، سمندری فضائی اور زمینی آلودگی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں ماحولیات کو بچانے کے لئے راتوں رات عوامی آگاہی مہم شروع کرنا ہوگی وہ بھی نہایت وسیع پیمانے پر اور بھرپور توجہ کے ساتھ ورنہ پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہوگا جہاں موسمی تغیرات سب کچھ بدل کر رکھ دے گا۔
بقول اُن کے، ’پاکستان میں موسم مشرقی سرحدوں (یعنی بھارت سے ہوتا ہوا) پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور ویسٹ (افغانستان ) کی جانب چلاجاتا ہے اور جاتے جاتے ملک کے بالائی علاقوں پر برستا جاتا ہے۔ لیکن، موسمی تغیرات کے سبب اب یہی مون سون 100کلومیٹر ویسٹ میں شفٹ ہوگیا ہے، جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے بالائی علاقوں (لاہور، اسلام آباد، اپر سندھ، نارتھ ویسٹ بلوچستان، جعفر آباد وغیرہ) میں بارشوں میں کمی واقع ہوگی۔۔۔یہ موسمی تبدیلی ہے اور پاکستان اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہوگا۔‘
عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی بات چیت میں توصیف عالم کا کہنا تھا کہ ’ملک کے بالائی علاقوں میں بارشیں کم ہونے کا سیدھا سادہ سا مطلب یہاں درجہ حرارت یا گرمی میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہے۔ گزشتہ روز یعنی چار جون کو سندھ کے شہر لاڑکانہ میں درجہ حرارت غیر معمولی طور پر زیادہ تھا یعنی 50 ڈگری سینٹی گریڈ۔ اسی طرح ’موہن جو دڑو‘ کا درجہ حرارت بھی49 ڈگری تھا۔ آج یعنی جمعرات کو جبکہ دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا، پاکستان کے بہت سے شہروں میں دن بھر بلاکی گرمی پڑتی رہی۔
توصیف عالم کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’پاکستان میں مون سون جولائی میں شروع اور ستمبر میں ختم ہوتا ہے۔ لیکن، گزشتہ سال جولائی اور اگست کے مہینوں میں موسم خشک رہا جبکہ غالباً 2ستمبر سے 6ستمبر 2013تک کے درمیان شکارپور، موہن جو دڑو، جیکب آباد اور بلوچستان کے کچھ علاقوں خاص کر جعفر آباد، جھل مگسی اور نصیر آباد میں جو تیز بارشیں ہوئیں وہ بھی غیر معمولی موسمی تغیرات کی جانب واضح اشارہ ہیں کیوں کہ مذکورہ مدت میں یہاں بارشیں ہوتی ہی نہیں۔‘
بارشوں کا نظام بگڑ رہا ہے
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان میں بارشوں کا نظام بگڑ رہا ہے۔ جہاں بارشیں پہلے بہت کم یا بالکل نہیں ہوتی تھیں اب وہاں غیر معمولی بارشیں ہو رہی ہیں اور بار بار ہو رہی ہیں، جبکہ جہاں بارشیں معمول تھیں وہاں خشکی چھائی ہوئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ماحولیات سے بے خبری، خاموش موت کو دستک ہے
’انوائرومنٹل پروٹیکیشن ایجنسی‘ (ای پی اے) سے وابستہ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی مسائل سے حکومتی اور عوامی بے خبری، خاموش موت کو دستک دینے کے مترادف ہے۔ حکام کی ماحولیات پر مسلسل عدم توجہ کے باعث پاکستان کا شمار دنیا کی غیر سنجیدہ حکومتوں میں ہوتا ہے۔
’ای پی اے‘ کے ماہرین ڈاکٹر پرویز عامر، شفیق کاکاخیل اور ڈاکٹر جاوید چشتی نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پچھلے بجٹ میں ماحولیات کیلئے 54 ملین روپے مختص تھے جبکہ موجودہ بجٹ میں یہ رقم کم کرکے صرف 20 ملین روپے کردی گئی ہے حالانکہ یہاں ماحولیاتی مسائل دن دگنی اور رات چوگنی رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔
ان کے بقول، ’پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں وفاقی ماحولیات کی وزارت نہیں ہے جبکہ ماحولیات سے متعلق ادارے کلائمٹ چینج ڈویژن صوبائی انوائرمنٹل ایجنسیز، اوشنو گرافی، وائلڈ لائف، محکمہ جنگلات، زولوجیکل سروے، سپارکو کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں اور نہ ہی ان اداروں کے درمیان کسی قسم کی معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے‘۔
عوامی بے خبری
دیگر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں عوام بھی ماحولیاتی نقصان سے بے خبر ہے اور وہ آگاہی نا ہونے کے سبب ماحول کو بگاڑ رہی ہے۔ کوڑے کرکٹ یا کچرے کو آگ لگانا قانونا ً جرم ہے لیکن بہت ہی کم لوگوں کو اس کا علم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچرے میں جب چاہے اور جہاں چاہے آگ لگادی جاتی ہے۔
ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ عوام آگاہی نہیں رکھتی اور جگہ جگہ کچرا کنڈیاں بنادی جاتی ہیں۔ اسپتال، گھروں ، فیکٹریوں اور دیگر جگہوں کا انتہائی خطرناک کوڑا سرعام جلادی جاتا ہے۔ حالانکہ، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے دھویں سے ایک دو، نہیں متعدد خطرناک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
اکثر لوگ لاپروائی اختیار کرتے ہوئے گاڑیوں کی ٹوئنگ تک نہیں کراتے جس سے وہ زیادہ دھواں دینے لگتی ہیں۔ اس دھویں سے ناصرف انسانوں کا دم گھونٹ رہا ہے بلکہ اوزن میں بھی شگاف پڑگیا ہے۔ اسی سبب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سورج کی حدت بڑھ رہی ہے، گلیشیر پگھل رہے ہیں، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہورہا ہے، بارشوں کا نظام بگڑ رہا ہے، سمندری فضائی اور زمینی آلودگی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں ماحولیات کو بچانے کے لئے راتوں رات عوامی آگاہی مہم شروع کرنا ہوگی وہ بھی نہایت وسیع پیمانے پر اور بھرپور توجہ کے ساتھ ورنہ پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہوگا جہاں موسمی تغیرات سب کچھ بدل کر رکھ دے گا۔