پولینڈ کے وزیرخارجہ نے انتباہ کیا ہے کہ یورپ اس وقت اسی طرح جنگ کے قریب پہنچ چکا ہے جیسا کہ وہ 30سال پہلے تھا۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے موقع پرسامنے آیا ہے جب یوکرین اور روس کے معاملے پر جاری تناؤ کم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں ہو رہی ہیں۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
پولینڈ کے وزیرخارجہ زبیگنیو راؤ نے یورپ کی سیکیورٹی اور تعاون سے متعلق 57 ارکان پر مشتمل تنظیم 'او ایس سی ای' کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے روس کا نام نہیں لیا۔ تاہم، ان تنازعات کا ذکر کیا جن میں ماسکو مبینہ طور پر ملوث رہا ہے۔
زیبگنیو کا کہنا تھا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ 'او ایس سی ای' کے علاقے میں جنگ کا خطرہ اس سے کہیں زیادہ ہےجتنا 30 سال پہلے تھا۔
پولینڈ نیٹو کے ان ممالک میں شامل ہے جو مشرقی یورپ میں روس کے بڑھتے ہوئے سیاسی عزائم کے خلاف نمایاں طور پر مزاحمت کرتے ہیں۔
SEE ALSO: یوکرین کے تنازع پر روس امریکہ مذاکرات کا آغازروس نے یوکرین کی سرحدوں پر اپنے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات کر دیے ہیں، جب کہ یوکرین پہلے ہی اپنے مشرقی حصے میں ان علیحدگی پسندوں کے خلاف لڑ رہا ہے جنہیں ماسکو کی سرپرستی حاصل ہے۔ روس نے 2014 میں یوکرین کے علاقے کرائمیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ روس کا موقف ہے کہ کرائمیا کے عوام روس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے۔
تناؤ میں کمی کے لیے امریکہ اور نیٹو کی سفارتی کوششیں
اس ہفتے ویانا میں جمعرات پہلا ایسا دن ہے جس میں یوکرین اجلاس میں شریک ہو گا، لیکن اس کی شرکت سفیر کی سطح کی ہے جو کہ ایک کم تر سطح ہے۔ اس سے قبل منگل کے روز جنیوا میں روس اور امریکہ کے درمیان وزارتی سطح کے اور بدھ کو برسلز میں روس اور نیٹو کے درمیان مذاکرات میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ جمعرات کے اجلاس کے بعد اس میں شامل فریقوں کا بحث مباحثہ اس بات کا تعین کرے گا آئندہ کے لیے موزوں اقدامات کیا ہوں۔
پرائس نے بدھ کو کہا تھا کہ امریکہ کو توقع ہے کہ تین اجلاسوں میں شرکت کرنے والے روسی وفود واپس جا کر صدر پوٹن کو رپورٹ کریں گے اور ہم سب کو امید ہے کہ وہ امن اور سلامتی کا انتخاب کریں گے اور انہیں یہ علم ہے کہ ہم اس معاملے میں مخلص ہیں اور سفارت کاری اور بات چیت کو ترجیج دیتے ہیں۔
کشیدگی میں کمی کی تجاویز، روس نے جواب کے لیے وقت مانگ لیا
امریکہ اور نیٹو اتحادیوں نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لائے اور اس صورت حال کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرے۔ پرائس کا مزید کہنا تھا کہ بدھ کے روز ہم نے انہیں خطرات کم کرنے، شفافیت، رابطے اور ہتھیاروں پر کنٹرول بڑھانے کے لیے تجاویز پیش کیں۔
امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شیرمن نے، جنہوں نے برسلز میں امریکی وفد کی قیادت کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ نیٹو اور روس کے درمیان اجلاس ماسکو کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج کے ساتھ ختم ہوا کہ وہ کشیدگیاں کم کرے، سفارت کاری کا راستہ اختیار کرے اور اخلاص پر مبنی بات چیت جاری رکھے، تاکہ ہم ایسا حل تلاش کر سکیں جس سے ہم سب کی سیکیورٹی میں اضافہ ہو۔
نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ بدھ کے روز تقریباً چار گھنٹوں تک جاری رہنے والے اجلاس میں ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا کہ کشیدگی میں کمی لائی جائے گی اور نہ ہی ایسا کوئی بیان سامنے آیا کہ ایسا نہیں ہو گا۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولن برگ نے کہا ہے کہ انہوں نے روس کے ساتھ سلسلے وار اجلاسوں کی تجویز پیش کی، جس پر کہا گیا کہ انہیں جواب لانے کے لیے وقت درکار ہے۔
جارحیت کی صورت میں روس پرامریکی پابندیاں لگ سکتی ہیں
واشنگٹن میں بدھ کے روز قانون سازوں نے روس کو مزید جارحیت سے روکنے کے لیے جامع پابندیوں کا ایک پیکیج تجویز کیا ہے۔
اگر صدر پوٹن یوکرین کے خلاف جارحیت پر مبنی اقدامات میں اضافہ کرتے ہیں تو یہ پابندیاں یوکرین کی آزادی اور خود مختاری کے ایکٹ برائے 2022 کے تحت عائد کی جائیں گی جن کا ہدف روس کا بینکاری کا شعبہ، اعلیٰ فوجی اور حکومتی عہدے دار ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر جو بائیڈن روس کے خلاف فوجی لڑائی کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں، چاہے روس یوکرین پر حملے کا فیصلہ ہی کیوں نہ کر لے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ماسکو جارحیت کا مرتکب ہوتا ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی روس کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عائد کریں گے۔
یوکرین کو فوجی اور انٹیلی جنس مدد فراہم کی جائے، ری پبلیکن ارکان کانگریس
امریکی ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے دو ری پبلکن ارکان نے بدھ کے روز صدر بائیڈن کی انتظامیہ پر روز دیا ہے کہ وہ یوکرین کی فوجی اور انٹیلی جنس مدد میں اضافہ کریں۔ ایوان نمائندگان کے ایک رکن مائیک ٹرنر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ یوکرین کو مؤثر انداز میں مسلح کرے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکے۔
واشنگٹن 2014 کے بعد سے، جب روس نے کرائمیا پر قبضہ کیا تھا، یوکرین کے لیے دو ارب ڈالر سے زیادہ فوجی مدد کے وعدے کر چکا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز اور اے ایف پی سے لیا گیا ہے)