امریکہ اور روس کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول اور یوکرین سمیت دیگر سیکیورٹی معاملات پر مذاکرات جنوری میں طے پا گئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ دونوں ممالک کے وفود 10 جنوری کو ملیں گے جس کے بعد 12 جنوری کو روس اور نیٹو اتحاد جب کہ 13 جنوری کو امریکہ، روس اور یورپی ممالک کے وفود کے مابین بات چیت ہو گی۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ "جب ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو روس بھی اپنے تحفظات رکھے گا اور ہم بھی روس کی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کریں گے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ کچھ معاملات پر پیش رفت ہو سکتی ہے جب کہ بعض معاملات پر اختلافِ رائے ہو گا اور اسے ہی سفارت کاری کہتے ہیں۔
ترجمان نے واضح کیا کہ یوکرین کے حوالے سے صدر بائیڈن کی سوچ واضح اور غیر مبہم ہے۔
اُن کے بقول صدر بائیڈن یہ واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ روس، یوکرین تنازع کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا ہے۔ لیکن اگر روس نے یوکرین میں مداخلت کی تو اسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جغرافیائی لحاظ سے روس اور یورپی یونین کی سرحد کے قریب واقع ملک یوکرین سابق سوویت یونین کا ہی حصہ تھا۔
البتہ روس یوکرین پر روس کے خلاف اشتعال انگیزی کے الزامات عائد کرتا رہا ہے۔ سال 2014 میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا اور اس کے بعد سے ہی روسی حمایت یافتہ جنگجو گروپس اور یوکرینی فوج کے درمیان وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک روسی افواج کی یوکرین کی سرحد کے قریب بڑھتی ہوئی نقل و حرکت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق رواں ماہ ہزاروں روسی فوجی یوکرین کی سرحد کے قریب تعینات کیے گئے ہیں۔
امریکہ اور یورپی ممالک کو خدشہ ہے کہ روس ممکنہ طور پر یوکرین پر حملے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
جی سیون ممالک نے رواں ماہ روس کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس کی افواج یوکرین میں داخل ہوئیں تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔
البتہ روس کے صدر ولادی میر پوٹن ایسے کسی بھی منصوبے کی تردید کرتے ہوئے یہ ضمانت طلب کر رہے ہیں کہ یوکرین کو نیٹو کا حصہ نہیں بنایا جائے گا اور نیٹو ممالک اس کی سرحد کے قریب جنگی مشقیں بھی روک دیں۔
اس خبر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔