ایسے وقت جب شام اور عراق میں داعش پسپا ہو رہی ہے، جہادی دہشت گرد خدشات نے یورپ کو جکڑا ہوا ہے، جہاں ہونے والے قومی اور علاقائی انتخابات پر یہ کلیدی اثر ڈالنے والے ہیں۔
کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ آسٹریا، فرانس، جرمنی اور نیدرلینڈز میں انتخابات سے قبل والی سرگرمی کے دوران وہ سیاست دان جو ووٹ لینے کے لیے عوامی نعروں کا سہارا لیں گے، وہ اسلام کو قومی تشخص کے لیے خطرے کا باعث امر پیش کر سکتے ہیں، جس سے، نادانستہ طور پر، دراصل وہ جہادی پروپیگنڈہ کرنے والوں اور بھرتی کرنے والوں کے ہاتھ مضبوط کریں گے۔
پورے یورپ میںِ اس وقت شناخت پر مبنی سیاست ہو رہی ہے، جب اسلام اور دہشت گردی پر ڈر خوف بڑھ رہا ہے اور اس بات پر تند و ترش مباحثہ جاری ہے کہ سکیورٹی اور آزادی کے درمیان کیا توازن اختیار کیا جانا چاہیئے۔
اتوار کے روز جرمنی کے لیے بائیں بازو کے متبادل قوم پرست، تین برس پہلے تارکین وطن کے خلاف تشکیل دی جانے والی پارٹی کو علاقائی الیکشن میں کافی فائدہ پہنچا، جس سے ایک برس قبل جرمن چانسلر آنگلہ مرخیل نے مہاجرین کے لیے ملک کی سرحدیں کھول دینے کا فیصلہ کیا۔ نئی پارٹی نے مرخیل کی قدامت پسند کرسچین ڈیموکریٹس کو خود چانسلر کی اپنی آبائی ریاست میں تیسرے نمبر پر لاکھڑا کیا ہے۔
سوال یہ ہے آیا یہ نئی سیاسی جماعت (اے ایف ڈی) آئندہ 12 ماہ کے دوران علاقائی انتخابات میں اپنی کارکردگی جاری رکھ سکے گی، جس کے بعد قومی انتخابات ہوں گے؟
ژان مشیل ڈی ویلے، برسلز کی ’فری یونیورسٹی‘ میں سیاسیات کے سائنس داں ہیں۔ اُن کے مطابق، ’’ہمیں دیکھنا ہوگا آیا آئندہ مہینوں کے دوران مہاجرین کے معاملے پر مباحثہ جاری رہتا ہے، جو ابھی تک اولین درجے کا مسئلہ ہے یا سماجی معاشی اشوز سبقت لے لیتے ہیں‘‘۔
یورپ کی سیاست کا مستقبل؟
اتوار کے روز ’اے ایف ڈی‘ کو ملنے والے کامیابی سے یورپ لرز اٹھا ہے، جس سے اس بات اشارہ ملتا ہے کہ عوامی، تارکینِ وطن کے خلاف بڑھنے والے جذبات آئندہ کے انتخابات میں اولیت لیں گے، جس سے متوسط سوچ کی حامل سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی کی سخت پالیسیاں اور تارکین وطن کے خلاف بیانیہ سخت کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
اس سے یورپی سیاست میں تبدیلی آئے گی اور یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا انداز بدل جائے گا، جس نے جولائی میں معاشی بلاک چھوڑنے کے لیے ووٹ دیا۔
عین ممکن ہے کہ اس سے مغرب اور روس کے تعلقات پر بھی اثر پڑے جو یورپ کے دائیں بازو کے فریق کو اپنی جانب متوجہ کرتا رہا ہے اور ممکنہ طور پر اُنھیں رقوم فراہم کرتا آیا ہے۔
تاہم، یورپ میں دائیں بازو کی قدامت پسندی بڑھ رہی ہے جس سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان فوری اثرات پڑیں گے۔ فرانس کے انتخابات کے موسم میں، توجہ برکنی پر پابندی کے معاملے کے گرد گھوم رہی ہے، جو ایک طویل عرصے سے جاری تنازع رہا ہے، جس میں ملک کے ساحلی قصبوں کے درجنوں میئروں نے برکنی پر پابندی لگائی ہے، جو برقعے اور تیرنے کا خاص نوعیت کا لباس ہے۔