یورپ میں شدید گرمی کی لہر جاری ہے۔فرانس، اسپین، یونان اور برطانیہ میں حکام منگل کے روز بھی جنگلوں میں لگی آگ سے نمٹنے میں مصروف رہے جب کہ پرتگال میں اب تک گرمی کی لہر سے متعلق ایک ہزار سے زائد ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں۔
جنوب مغربی فرانس میں فائر فائٹرز خطے میں 30 برس میں سب سے بڑی جنگل میں لگنے والی آگ بجھانے کی کوشش کرتے رہے۔ جب کہ حکام نے ایک شخص کو آتش زنی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
فرانس میں جنگل میں لگنے والی آگ سے 75 مربعہ میل کا رقبہ متاثر ہوا ہے جب کہ 30 ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔
SEE ALSO: یورپ میں شدید گرمی، ہزاروں ایکڑ جنگلات شعلوں کی لپیٹ میںمقامی شہری پاؤل ورچیو جن کا گھر آتش زنی کا شکار ہوچکا ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ امید کر رہے ہیں کہ آگ پر جلد قابو پا لیا جائے گا تاکہ وہ بھی اپنے گھر واپس جا سکیں اور نقصان کا اندازہ لگایا جا سکے۔
یونان میں قدیم شہر ایتھنز کے نزدیک تیز ہواؤں کی وجہ سے جنگل میں لگنے والی آگ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ جب کہ برطانیہ، جہاں ریکارڈ گرمی کی لہر سے شہری بے حال ہیں وہاں گریٹر لندن کے علاقے میں واقع گاؤں وینینگٹن میں آتش زنی کی وجہ سے کئی گھر تباہ ہو گئے ہیں۔
رواں برس فروری میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث اگلے 28 برس میں جنگلوں میں آتش زنی کے واقعات میں 30 فی صد اضافہ ہو سکتا ہے۔
حکام کی توجہ یورپ میں جاری گرمی کی لہر کے انسانی صحت پر اثرات کی جانب مرکوز ہے۔ اس سلسلے میں عمر رسیدہ اور کمزور طبقات پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
SEE ALSO: یورپ میں شدید گرمی کی لہر ، اسپین نے ماحولیاتی تبدیلی کو ذمہ دارقرار دے دیاپرتگال کی صحت کی اعلی حکام نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا کہ جولائی 7 سے 18 تاریخ کے دوران گرمی کی لہر سے تعلق رکھنے والی 1063 اموات ریکارڈ کی گئیں۔
لزبن یونی ورسٹی میں سائنس کے ریسرچر کارلوس اینٹیونز نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمر رسیدہ افراد اس گرمی کی لہر سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
ان کےبقول ’’موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اموات میں بھی اضافے کا امکان ہے اس لیے ہمیں عوامی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے اثر کو محدود کرنا ہے۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کے دوران بھی گرم درجہ حرارت کی وجہ سے یورپ بھر میں فائر فائٹرز کو آگ پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے اور بلند درجہ حرارت کی وجہ سے ایک بڑی آبادی کو بھی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز'سے لیا گیا۔