امریکہ ایران کے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کرے: یورپی یونین

مائیک پومپیو پیر کو یورپی رہنماؤں سے ملاقات کے لیے یورپی یونین کے دفتر آ رہے ہیں۔

امریکہ کے یورپی اتحادیوں نے اس پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے معاملے پر ہر ممکن حد تک تحمل کا مظاہرہ کرے اور فوجی طاقت کے استعمال سے باز رہے۔

یورپی رہنماؤں کا یہ انتباہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ نے اپنا ایک بحری بیڑہ اور جنگی طیارے مشرقِ وسطیٰ بھیج دیے ہیں جس پر ایران سخت برہم ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موغیرینی نے پیر کو برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو سے حالیہ کشیدگی پر بات کی ہے۔

موغیرینی نے بتایا کہ انہوں نے مائیک پومپیو پر واضح کر دیا ہے کہ موجودہ حالات میں امریکہ کو ہر ممکن حد تک کشیدگی میں اضافے سے گریز اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ تک یہ پیغام صرف انہوں نے ہی نہیں بلکہ یورپی یونین کے رکن ملکوں کے وزرا نے بھی پہنچایا ہے کہ موجودہ نازک حالات میں یہی بہتر راستہ ہے۔

فیڈریکا موغیرینی کے علاوہ مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' کے سربراہ جینز اسٹالٹن برگ اور برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے بھی پیر کو برسلز میں امریکی وزیرِ خارجہ سے حالیہ کشیدگی پر گفتگو کی۔

امریکی فوج کا طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس ابراہم لنکن جسے امریکہ نے حالیہ کشیدگی کے پیشِ نظر مشرقِ وسطیٰ میں تعینات کردیا ہے۔ (فائل فوٹو)

مائیک پومپیو کو پیر کو روس کے اپنے پہلے باضابطہ دورے پر ماسکو پہنچنا تھا. لیکن انہوں نے ایران کے ساتھ جاری کشیدگی کے پیشِ نظر اپنا یہ دورہ ملتوی کر دیا تھا اور وہ یورپی اتحادیوں سے بات چیت کے لیے برسلز پہنچے تھے۔ پومپیو اب منگل کو روس جائیں گے۔

امریکی حکام کے مطابق مائیک پومپیو نے ملاقاتوں کے دوران یورپی رہنماؤں کو "ایران سے بڑھتے ہوئے خطرات" سے آگاہ کیا اور الزام لگایا کہ تہران حکومت مذاکرات کی بجائے دھمکیوں کا راستہ اختیار کر رہی ہے۔

امریکہ نے گزشتہ ہفتے اپنا ایک اور بحری بیڑہ مشرقِ وسطیٰ روانہ کرتے وقت کہا تھا کہ وہ یہ اقدام خطے میں امریکی مفادات پر ایرانی حملے کے خطرے کے پیشِ نظر کر رہا ہے۔

حالیہ کشیدگی کی وجہ امریکہ کی جانب سے ایرانی تیل کی برآمدات پر عائد کی جانے والی نئی اقتصادی پابندیاں ہیں جن پر ایران برہم ہے اور مسلسل ان پابندیوں کے خلاف اقدامات کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ اگر روس، چین اور یورپی طاقتوں نے ایران کے تیل اور بینکنگ سیکٹر پر عائد امریکی پابندیوں کے اثرات کم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کیں تو ان کا ملک جوہری معاہدے سے الگ ہو جائے گا۔

مائیک پومپیو کے ہمراہ برسلز میں موجود امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے ایران برائن ہوک نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ نے یورپی رہنماؤں سے اپنی ملاقاتوں میں متحدہ عرب امارات کے ساحل کے نزیک آئل ٹینکرز پر ہونے والے حملوں کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔

لیکن انہوں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کیا امریکہ ایران کو ان حملوں میں ملوث سمجھتا ہے۔

ایران نے حالیہ کشیدگی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹہرایا ہے اور خبردار کیا ہے کہ وہ جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے۔ (فائل فوٹو)

متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اتوار کو کہا تھا کہ فجیرہ کے نزدیک لنگر انداز چار بحری جہازوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ بعد ازاں سعودی عرب نے تصدیق کی تھی کہ ان میں دو جہاز اس کے آئل ٹینکرز تھے۔

سعودی حکومت نے الزام لگایا تھا کہ حملوں کا مقصد خام تیل کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنا ہے اور اس کا تعلق امریکہ اور ایران کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی سے ہے۔

برائن ہوک کے مطابق اماراتی حکام نے ان حملوں کی تحقیقات میں امریکہ سے تعاون کی درخواست کی ہے اور امریکہ اس معاملے میں پورا تعاون کر رہا ہے۔

تینوں بڑی یورپی طاقتوں اور ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے والے چھ ملکوں میں شامل برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے بھی پیر کو فریقین سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی ہے۔

برسلز میں موجود برطانیہ کے وزیرِ خارجہ جیریمی ہنٹ نے کہا ہے صورتِ حال اتنی کشیدہ ہے کہ کوئی غلطی بھی کسی تصادم کا سبب بن سکتی ہے۔

جرمنی کے وزیرِ خارجہ ہائیکو ماس نے ایران کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک اس معاہدے کو یورپ کی سلامتی کے لیے بنیادی نوعیت کی دستاویز سمجھتا ہے۔

فرانس کے وزیرِ خارجہ یاں ایولی دغیاں نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایرانی تیل کی برآمدات روکنے کی کوششیں "یورپ کے حق میں نہیں۔"