شہری ہوا بازی سے متعلق یورپ کے ادارے 'یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی' نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) سمیت پاکستانی طیاروں کی برطانیہ اور یورپ میں پروازوں پر عائد پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ارشد ملک کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے کچھ مسائل ہیں۔ لیکن جلد ان مسائل پر قابو پا لیا جائے گا۔
یورپی کمشن ڈائریکٹوریٹ جنرل فار موبیلٹی اینڈ ٹرانسپورٹ نے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن پاکستان کو بذریعہ مراسلہ آگاہ کیا ہے کہ پائلٹس کے مشکوک لائسنس اور جعلی ڈگریوں کے معاملے پر پاکستان کے طیاروں کی برطانیہ اور یورپ جانے والی پروازوں پر پابندی برقرار رہے گی۔
پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ یورپی کمشن کے 17 اور 18 نومبر کو برسلز میں ہونے والے اجلاس میں پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
مراسلے میں پاکستان کو کچھ اقدامات بھی تجویز کیے گئے ہیں جن کے مطابق پاکستان کی ایوی ایشن اتھارٹی کو پائلٹس لائسنس کے طریقہ کار کو شفاف اور فول پروف بنانے کے لیے کہا گیا ہے۔
مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی یورپی یونین کے کمشن کو مطمئن نہیں کر سکی۔ اسے سیفٹی اقدامات مزید بہتر بنانے ہوں گے۔
مراسلے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان کی سی اے اے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ تاہم اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے سی ای او ارشد ملک کہتے ہیں کہ لائسنسنگ کے ایشوز کی وجہ سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ فلائٹ سیفٹی سے متعلق مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔
اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں ارشد ملک کا کہنا تھا کہ کرونا کی وجہ سے کچھ مسائل ہیں لیکن پی آئی اے جلد عروج حاصل کرے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ارشد ملک کا کہنا تھا کہ پی آئی اے آئندہ چند برس میں منافع کمانے والا ادارہ ہو گا۔ نجی شعبے کے تعاون سے پی آئی اے کے نقصان کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کرونا کی صورتِ حال میں بھی عوام کو ریلیف دینے کے لیے پی آئی اے کے کرائے کم کیے گئے ہیں۔
اس بارے میں ایوی ایشن صحافی طاہر عمران کا کہنا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کے اقدامات سے معطلی جلد ختم ہونے کی امید ہے۔ لیکن پاکستان کے وزیرِ ہوا بازی غلام سرور خان کا پائلٹوں کے جعلی لائسنسوں سے متعلق بیان اب تک پاکستان کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔
طاہر عمران نے کہا کہ ایاٹا اور دیگر سیفٹی ایجنسیوں کی اجازت کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز اس وقت ایئر کارگو پر زیادہ کام کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے مختلف سامان سیٹوں پر رکھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا ہے۔ اس سے ایئر لائن کا نقصان کم ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اب سیفٹی کے حوالے سے سافٹ وئیر پر تمام معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس کا سیفٹی آڈٹ ہونا تھا۔ لیکن پاکستان کے پائلٹس کے جعلی لائسنسوں کا معاملہ اب تک حل نہیں ہو سکا ہے۔
ان کے بقول مختلف ادارے پاکستان کو آگاہ کر رہے ہیں کہ اگر درست اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان ایوی ایشن کے حوالے سے شدید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت پاکستان کی نجی ایئر لائنز بھی اپنے آپریشنز کو وسعت دینا چاہتی ہیں اور ان کے نئے جہاز بھی آ رہے ہیں۔ لیکن وہ صرف ان مسائل کی وجہ سے اپنی بین الاقوامی پروازیں آپریٹ نہیں کر پا رہیں جس سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے 24 جون کو کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔ جس کے بعد 30 جون کو یورپین یونین کی ایئر سیفٹی ایجنسی نے پاکستان ایئر لائن کا یورپی ممالک کے لیے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے معطل کر دیا تھا۔ اور پی آئی اے کی یورپ جانے والی تمام پروازیں منسوخ کر دی گئی تھیں۔