وزیرِ اعظم عمران خان نےاحتساب کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بریگیڈئیر(ر) مصدق عباسی کو مشیر برائے احتساب و داخلہ مقرر کیا ہے۔قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کے طور پر کام کرنے والے مصدق عباسی کو کرپشن پر سخت سزاؤں کا حامی سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت میں یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی رینکنگ میں تنزلی کی گئی ہے اور مبینہ طور پر احتساب کے عمل میں پیش رفت نہ ہونے پر مشیر احتساب شہزاد اکبر کو اپنے عہدہ سے مستعفی ہونا پڑا ہے۔
مصدق عباسی کو وزیرِ اعظم عمران خان نے مشیر احتساب شہزاد اکبر کی جگہ تعینات کیا ہے۔شہزاد اکبر کی طرف سے یہ عہدہ چھوڑنے کی اگرچہ کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی البتہ مبینہ طور پر لوٹی گئی دولت بیرونِ ملک سے واپس لانے اور بالخصوص حزبِ اختلاف کے خلاف قائم مقدمات کو منطقی انجام تک نہ پہنچانے پر وزیرِ اعظم ان سے خوش نہیں تھے۔
بریگیڈئیر (ر) مصدق عباسی ایبٹ آباد کے قریب بیروٹ کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والد مقامی سیاست میں بہت فعال کردار ادا کرتے رہے تھے۔ 1974 میں پاکستان کی فوج میں بھرتی ہونے کے بعد وہ مختلف مقامات پر خدمات انجام دیتے رہے اور 30 سال کی نوکری کے بعد ریٹائر ہوئے۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں وہ بطور ڈائریکٹر نیب تعینات کیے گئے اور کراچی میں ڈائریکٹر ریکارڈز کے طور پر کام کرتے رہے۔
سال 2010 میں انہیں ڈائریکٹر جنرل نیب پشاور تعینات کیا گیا۔ آئندہ برس 2011 میں انہیں اسلام آباد میں ڈائریکٹر جنرل آگاہی اور انسداد مقرر کیا گیا اور اس کے بعد ریٹائرمنٹ تک وہ اسی عہدہ پر کام کرتے رہے۔ نیب سے ریٹائرمنٹ کے بعد مصدق عباسی حالیہ عرصہ میں ایک ریسرچ اینڈ کلیکشن کمپنی کے ساتھ اکاؤنٹیبلٹی لیب کے ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کررہے تھے۔
مصدق عباسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نیب قوانین میں تبدیلی کے حامی ہیں اور ایسے قوانین بنانے کے خواہش مند ہیں جن کی مدد سے عدالتوں سے بدعنوان افراد کو سزائیں دلوائی جاسکیں۔ نیب میں اپنی آخری تعیناتی کے دوران انہوں نے نیب کی کرپشن کے خلاف عوامی مہم چلانے پر بھی زور دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مشیرِ احتساب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت انصاف کی فراہمی اور کرپشن کے خاتمے کے نعرے پر اقتدار میں آئی تھی اور بیرونِ ملک سے لوٹی گئی دولت واپس لانا ان کا بڑا نعرہ تھا البتہ ساڑھے تین سال کی حکومت کے بعد م، بعض ماہرین کے مطابق، ابھی اب تک اس سلسلے میں انسداد کے حوالے سے حکومت کو کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔
اس بارے میں نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئے مشیرِ احتساب کےاہداف دو قسم کے ہیں جن میں سے ایک اندرونِ ملک اور دوسرا ہدف بیرون ملک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اندرونِ ملک ان کا ہدف یہ ہے کہ وہ حکومت کو اس بارے میں تجاویز دیں کہ احتساب کے عمل کو تیز رفتار بنانے کے لیے کون کون سی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔کیسز میں کیا کیا مسائل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیرونِ ملک اہداف ان کے یہ ہیں کہ پاکستان سے بھاگے ہوئے لوگوں کو واپس لائیں۔ دوسرا لوٹی ہوئی دولت کو واپس لایا جائے اور تیسرا ان ممالک کے ساتھ معاہدات کیے جائیں جہاں پاکستانیوں کی لوٹی ہوئی دولت پڑی ہوئی ہے۔ یہ تینوں اہداف مکمل ہوں گے تو ہی انہیں کامیاب تصور کیا جا سکتا ہے۔
عمران شفیق کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر کو مشیرِ احتساب کے ساتھ ساتھ وزیرِ مملکت برائے داخلہ کا عہدہ بھی اسی مقصد کے لیے دیا گیا تھا کہ وہ عملی طور پر ایف آئی اے اور دیگر اداروں کو استعمال کرتے ہوئے ان تمام اہداف کو پورا کریں لیکن وہ ایسا نہ کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ بطور مشیر مصدق عباسی کو کوئی ادارہ براہِ راست جواب دہ نہیں ہو گا۔ وہ مختلف معاملات میں وزیرِ اعظم کو مشورہ دے سکتے ہیں لیکن عملی طور پر ادارے ان کو جواب دہ نہیں ہوں گے۔ وزیرِ اعظم ہاؤس میں شہزاد اکبر نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ تشکیل دیا تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں دیے گئے فیصلے کے مطابق اس ادارے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ایسے میں مصدق عباسی کے لیے پاکستان میں احتساب کے عمل کو تیز کرنے اور بیرون ملک سے پاکستان کی دولت کو واپس لانے کا کوئی قانونی طریقہ موجود نہیں ہے۔س
Your browser doesn’t support HTML5
عمران شفیق کا کہنا تھا کہ باضابطہ قانون سازی نہ ہونے کی صورت میں مصدق عباسی کی بطور مشیرِ احتساب تعیناتی سے کوئی خا ص فرق نہیں پڑے گا۔