رسائی کے لنکس

کیا نواز شریف کو واپس لانے کے لیے حکومت کے پاس قانونی آپشنز ہیں؟


سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نومبر 2020 کو علاج کی غرض سے لندن گئے تھے۔ (فائل فوٹو)
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نومبر 2020 کو علاج کی غرض سے لندن گئے تھے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان میں ان دنوں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کی خبریں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔ تاہم قانونی اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کی وطن واپسی اتنی آسان نہیں ہو گی۔

ان خبروں کو اس وقت تقویت ملی جب حالیہ دنوں میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ لندن میں اُن کی نواز شریف سے ملاقات ہوئی اور سابق وزیرِ اعظم بہت جلد پاکستان واپس آ رہے ہیں۔

البتہ حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سزا یافتہ ہیں اور وعدے کے باوجود اپنے علاج کے بعد وطن واپس نہیں آئے، لہذٰا اُن کی منزل وطن واپسی پر جیل ہو گی۔

حکومتی رہنماؤں نے نواز شریف کی بیرون ملک روانگی سے قبل ضمانت دینے والے شہباز شریف کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا عندیہ دے رکھا ہے۔

البتہ قانونی ماہرین کہتے ہیں شہباز شریف کی زرِضمانت ضبط کی جا سکتی ہے لیکن شہباز شریف کے خلاف اس کے علاوہ کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو برطانیہ سے واپس لانے کے لیے موجودہ قانونی پوزیشن کے مطابق صرف استدعا کی جا سکتی ہے۔ البتہ ایسا کوئی قانونی آپشن نہیں ہے کہ برطانیہ انہیں پاکستان کے حوالے کرے۔

پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق کا کہنا ہے کہ نوازشریف کے خلاف کیسز میں انہیں سزائیں سنائی جا چکی ہیں اور ان کے بیرون ملک جانے کے بعد مختلف عدالتوں نے انہیں اشتہاری قرار دیا ہے۔

ان کے بقول بنیادی طور پر عدالت کے حکم پر عمل درآمد کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے لیکن یہ احکامات اسی وقت قابلِ عمل ہوں گے جب مذکورہ ملک کے ساتھ مجرمان کے تبادلے کا قانون موجود ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کسی ڈیل کے ذریعے انہیں واپس لے آتی ہے تو یہ الگ بات ہے لیکن برطانیہ کے ساتھ مجرمان کو حوالے کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ لہٰذا قانونی طور پر ایسا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ چوں کہ برطانیہ کے ساتھ مجرمان کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے لہٰذا وفاقی حکومت یا نیب برطانیہ سے چاہے درخواست بھی کرے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی یہ درخواست برطانیہ سے کر سکتا ہے البتہ یہ برطانیہ پر منحصر ہے کہ وہ اس درخواست پر کوئی ایکشن لیتا ہے یا نہیں۔

عمران شفیق کے مطابق پاکستان سے برطانیہ جانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان 'میوچل لیگل اسسٹنس' کا معاہدہ موجود ہے لیکن برطانیہ سے پاکستان لانے کے لیے برطانیہ میں کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اس وقت عدالت کے حکم سے ملک سے باہر گئے ہیں اور انہیں عدالتی حکم کے مطابق ہی اشتہاری بھی قرار دیا گیا ہے۔

'شریف برادران نے بیانِ حلفی دیا تھا'

پاکستان کی سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اظہر صدیق اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے بیان حلفی دیا تھا جس کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے برطانیہ سے اب تک اپنی کوئی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع نہیں کرائی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی سرٹیفکیٹ دیا جس میں ڈاکٹر کی طرف سے بتایا جائے کہ وہ سفر کرنے کے قابل ہیں یا نہیں۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے ضمانتی شہباز شریف کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت سے رُجوع کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے ضمانتی شہباز شریف کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت سے رُجوع کیا جائے گا۔

اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں ہائی کمشنر کی جانب سے نواز شریف سے ان کی میڈیکل رپورٹ کا پوچھا گیا تھا لیکن ان کے پوچھنے پر بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسداد کرپشن کے مطابق بھی کارروائی ہو سکتی ہے کیوں کہ وہ کرپشن کے الزام میں سزا یافتہ ہیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان معاہدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایک اشتہاری کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟

عمران شفیق کے مطابق پاکستان کے قانون کے تحت اگر کوئی شخص اشتہاری قرار دیا گیا ہے تو کوئی عام شخص بھی اس مجرم کو پکڑ کر عدالت کے حوالے کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنس (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو انہیں گرفتار کرنے کا حق حاصل ہے۔ البتہ موجودہ کیس میں معاہدہ نہ ہونے کے باعث فی الحال کارروائی نہیں ہو سکتی۔

اظہر صدیق نے کہا کہ نواز شریف عدالت سے مفرور ہیں، انہیں واپس لانے کے لیے حکومت عدالت سے فوری درخواست کر سکتی ہے۔

شہباز شریف کے بیان حلفی کی کیا اہمیت ہے؟

نواز شریف کی واپسی کے لیے شہباز شریف کے دیے گئے بیان حلفی اور اس میں رقم درج کرنے کے سوال پر عمران شفیق نے کہا کہ بیان حلفی میں جو رقم لکھی جاتی ہے ضامن صرف وہ رقم ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ کسی شخص کو کسی مجرم کے بدلے میں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے جو ضمانت دی تھی اس میں لکھا ہے کہ جب ان کی صحت ٹھیک ہو گی تو وہ واپس آجائیں گے۔ لیکن اس صحت کی بہتری کا کیا پیمانہ ہو گا اور کس وقت یا کس ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ پر انہیں تندرست تصور کیا جائے گا ایسا کوئی معاملہ سامنے نہیں ہے۔

انہوں نے کہا اگر شہباز شریف نے بیانِ حلفی میں کوئی رقم لکھی ہے تو وہ رقم ادا کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اگر میڈیکل گراؤنڈ کا ویزہ لے کر جاتے تو اس کی شرائط اور تھیں لیکن اب نواز شریف کا ویزہ بھی ختم ہو چکا ہے۔

شہباز شریف کی دی جانے والی ضمانت پر انہوں نے کہا کہ عدالت کے احکامات پر عمل درآمد نہ کیے جانے پر شہباز شریف کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا البتہ ابھی تک وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی درخواست نہیں دی ہے۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

نواز شریف کے لندن سے واپس نہ آنے پر وفاقی حکومت نے ان کے ضمانتی شہباز شریف کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ شہباز شریف نے نواز شریف کی وطن واپسی کی ضمانت دی تھی۔ لہٰذا اب ان کے واپس نہ آنے پر شہباز شریف کے خلاف عدالت سے رُجوع کیا جائے گا۔

البتہ حکومتی اعلان کے باوجود بھی اب تک شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر نہیں کی گئی ہے۔

نوازشریف جلد واپس آئیں گے، مسلم لیگ (ن)

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مطابق نواز شریف علاج کی غرض سے برطانیہ گئے تھے جہاں ان کا علاج جاری ہے۔ ایسے میں ان کا وطن واپس آنا فوی طور پر ممکن نہیں ہے۔

سابق وزیرِاعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ پارٹی کا بیانیہ یہی ہے کہ نواز شریف کو اپنا علاج کرا کر وطن واپس آنا چاہیے۔

نواز شریف کے خلاف کیسز

سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو 24 دسمبر 2019 میں العزیزیہ ریفرنس میں سات برس قید، 10 برس تک کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے پر پابندی اور ان کی نام تمام جائیداد ضبط کرنے کی سزا سنائی گئی تھی جب کہ لگ بھگ پونے چار ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔

اس کیس میں نواز شریف لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے تھے کہ 21 اور 22 اکتوبر 2019 کو انہیں طبیعت خرابی کے باعث اسپتال منتقل کیا گیا۔ بعد ازاں 25 اکتوبر کو چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت منظور کی گئی۔

اس کے بعد 26 اکتوبر کو العزيزيہ ریفرنس میں انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی عبوری ضمانت منظور ہوئی تھی اور وزیرِ صحت پنجاب یاسمین راشد نے تصدیق کی تھی کہ 26 اکتوبر کو نواز شریف کو معمولی ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔

بعد ازاں 29 اکتوبر کو العزيزيہ ریفرنس میں طبی بنیاد پر نواز شریف کی دو ماہ کے لیے سزا معطل کر دی گئی تھی۔ اس کے بعد نواز شریف سروسز اسپتال سے ڈسچارج ہوئے تھے اور انہیں ان کے گھر میں بنے آئی سی یو منتقل کر دیا گیا تھا۔

آٹھ نومبر 2019 کو شہباز شریف نے وزارت داخلہ کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی اور 12 نومبر 2019 کو وفاقی کابینہ نے نوازشریف کو باہر جانے کی مشروط اجازت دی جس میں انہیں کہا گیا کہ وہ لندن فلیٹس کی مالیت کے مساوی سات ارب روپے کا بانڈ جمع کرائیں۔

البتہ 14 نومبر 2019 کو مسلم لیگ (ن) نے انڈيمنٹی بانڈ کی شرط لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردی اور 16 نومبر کو لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔

اس عدالتی فیصلے کے بعد 19 نومبر 2019 کو نواز شریف علاج کے لیے لندن روانہ ہو گئے اور تاحال لندن میں ہی مقیم ہیں۔

XS
SM
MD
LG