|
امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے متصل ریاست ورجینیا کی وزارت تعلیم نے اسکولوں میں سیل فون کے استعمال پر پابندی کی تجویز دی ہے جس کے بعد نوجوان نسل کے لیے ٹیکنالوجی کا کردار توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
گورنر گلین ینگ کن کی اگلے ماہ نافذ ہونے والی گائیڈ لائنز کے تحت ایلیمنٹری، مڈل اور ہائی اسکول کے طلبا تعلیمی اوقات کے دوران اپنے سیل فون اپنے پاس نہیں رکھ سکیں گے۔ والدین بھی اپنے بچوں سے صرف اسکول کے فون نمبروں کے ذریعہ ان سے رابطہ کر سکیں گے۔
SEE ALSO: دو گھنٹے سے زیادہ اسکرین ٹائم سے بچوں میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہتجویز کے ردعمل میں والدین کی اکثریت نے اس پابندی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ورجنینا میں مقیم تحسین حمید کہتی ہیں کہ آج کے انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے دور میں بچوں سے کوئی رابطہ نہ ہونا ایک حیران کن اور پریشان کن سی بات لگتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ میں خود بھی تدریس سے منسلک رہی ہوں اور اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ فون کے بے جا استعمال سے کلاس روم میں خلل پڑتا ہے جس سے طالب علموں کی توجہ سبق سے ہٹ جاتی ہے۔
" لیکن ماں ہونے کے ناطے میں محسوس کرتی ہوں کہ کسی بھی قسم کی ایمرجنسی میں والدین کا بچوں سے رابطہ نہ ہونا بہت بڑی تشویش کا باعث ہوتا ہے۔"
فون کے استعمال کے مخالف کہتے ہیں کہ امریکہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے جہاں بچوں کو شروع ہی سے کلاس روم میں ڈیجیٹل ڈیوائسز دی جاتی ہیں جس سے مستفید ہوکر وہ ٹیکنالوجی کے بہتر استعمال کو سیکھتے ہیں اور اپنی تعلیم کے اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ایسے میں فون کلاس روم میں محض خلل پیدا کرکے اور ڈسپلن خراب کرکے اساتذہ اور طالب علموں کی توجہ ہٹاتے ہیں۔
فون کی افادیت کے بارے میں تقسیم طلبا میں بھی نظر آتی ہے۔ فیئرفیکس کاونٹی مڈل اسکول کی طالبہ ایمان حسین کہتی ہیں کہ ہر بچے کے پاس لیپ ٹاپ کمپیوٹر ہے اور سیل فون یا اسمارٹ فون سبق سے توجہ ہٹاتے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں آن لائن ہراسانی کی شکایات؛ 'والدین بچوں کے اسکرین ٹائم پر نظر رکھیں'وہ کہتی ہیں کہ ایمر جنسی کی صورت میں طالب علم با آسانی اسکول آفس کے فون سے والدین سے بات کر سکتے ہیں۔ دوسرے طلبا ان کے برعکس خیالات رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی اسکول عام طور پر پہلی کلاس سے ہی ہر بچے کو آئی پیڈ دیتے ہیں جبکہ تیسری کلاس کے بعد اسکول ہر بچے کو لیپ ٹاپ کمپیوٹر جاری کرتے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر تحقیق کرنے والے ادارے "کامن سینس ایجوکیشن" کے مطابق گیارہ اور ستراہ سال کے درمیان کی عمر کے طالب علم ایک دن میں اوسطاً 51 بار اپنے فون کو چیک کرتے ہیں جن میں اسکول کے اوقات کے دوران کئی منٹ بھی شامل ہیں۔ عام طورپر طالب علم سینکڑوں نوٹیفیکیشنز کے جواب میں اپنے فون چیک کرتے ہیں۔
وہ اپنے خاندان کے افراد کی جانب سے ٹیکسٹ میسیجز کو دیکھنے اور جواب دینے کے لیے بھی فون استعمال کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں اساتذہ کی تشویش بلکل جائز ہے۔
تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ خلل اور نظم وضبط کے لیے سیل فون یا اسمارٹ فون پر مکمل پابندی کوئی مناسب حل نہیں ہے۔ کامن سینس ایجوکیشن کے مطابق طالب علم اسمارٹ فون پر موجود "موبائل فرینڈلی ایپس" استعمال کرکے اسکول کے کام کو بہتر طریقے سے مکمل کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایسی جگہیں جہاں طالب علموں کو کمپیوٹر کی بجائے صرف اسمارٹ فون تک رسائی حاصل ہو وہاں فون طالب علموں کو یکساں رسائی دینےکا اہم ذریعہ ہیں اور اس طرح وہ ڈیجیٹل مساوات قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
'پابندی لگانا ٹیکنالوجی سے مونہہ موڑنے کے مترادف ہے'
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ماہر نفسیات، اور تعلیم اور معاشرتی مسائل پر نظر رکھنے والی پاکستانی امریکی ڈاکٹر شائستہ حمید اشائی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسمارٹ فون روز مرہ زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں ۔ لہذا ان پر پابندی لگانا ٹیکنالوجی سے مونہہ موڑنے کے مترادف ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ جدید طرز زندگی میں ٹیکنالوجی کی تعلیم اور دوسرے شعبوں میں سہولت کاری کے علاوہ اور بھی بہت سے اہم پہلو ہیں۔
"سب سے پہلے تو سیل فون رابطے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے تحفظ کا احساس دلاتے ہیں۔پھر یہ کہ ڈیجیٹل آلے کی حیثیت سے یہ افراد کے لیے ایمپاورمنٹ کا ٹول ہے جو تمام عمر کے لوگوں کو با اختیار بناتا ہے۔"
"جہاں تک طالب علموں کا تعلق ہے تو یہ سبق کو مکمل کرنے مختلف آرا سے مستفید ہونے کی آسانی سے دستیاب ایک نایاب سہولت ہے۔ لہذا اسمارٹ فون زندگی کا ایک ناگزیر پہلو بن چکا ہے۔"
تاہم ڈاکٹر شائستہ اشائی کہتی ہیں کہ اسمارٹ فون کے انٹرنیٹ کے ذریعہ جرائم پیشہ نیٹ ورکس کی طرف سے خطرات جیسے منفی پہلو بھی ہیں جن پر نظر رکھنا اسکول، والدین، حکومت اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ میں بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال میں پرائیویسی کے سخت قوانین نافذ ہیں جبکہ کئی ملکوں میں یاتو اس بارے قانون سازی ہونی باقی ہے یا پھر قانون کے نفاذ کا فقدان ہے۔
پاکستان کے تناظر میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشائی کہتی ہیں کہ پاکستان کے اسکولوں میں جہاں امریکہ جیسی ڈیجیٹل سہولیات میسر نہیں ہیں، اسمارٹ فون اور بھی اہم ہیں۔ طالب علم دنیا بھر سے جدید تحقیق اور قابل بھروسہ معلومات حاصل کرکے اپنی کارکردگی بہتر بنا سکتے ہیں اور تعلیمی معیار کو بلند کر سکتے ہیں۔
'مخمصے کا حل توازن ہے'
واشنگٹن ڈی سی اور ورجینیا میں استاد اور وائس پرنسپل کے طور پر کام کا وسیع تجربہ رکھنے والے ماہر تعلیم میلکم ڈیوس کہتے ہیں کسی بھی دوسری ٹیکنالوجی کی طرح سیل فون یا اسمارٹ فون کے اسکول اور کلاس روم میں استعمال کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔
SEE ALSO: پاکستان میں آن لائن ہراسانی کی شکایات؛ 'والدین بچوں کے اسکرین ٹائم پر نظر رکھیں'مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ سیل فون یقیناً ایک تعلیمی ٹول ہے جسے طالب علم اپنی اپنی سطح پر تحقیق کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اسکول کا کام مکمل اور بہتر انداز میں کرنے میں مختلف ایپس کے ذریعہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ڈیوس جو الیگزینڈریا میں پیٹرک ہنری اسکول سے وابستہ ہیں کہتے ہیں کہ ان کے تجربہ کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا کلاس روم میں بلا ضرورت استعمال طالب علموں کی کارکردگی کو خراب کرتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ اس کی وجہ سے کچھ طالب علموں میں نقل کرنے، اور سائبر ہرا سانی جیسے مسائل کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔
"میں سمجھتا ہوں کہ کسی تعلیمی ادارے کو سیل فون کے استعمال کے بارے میں فیصلہ کرنے میں ایک متوازن سوچ اختیار کرنی ہوگی جو اس کی استعمال کی افادیت اور دوران کلاس خلل اندازی کی روک تھام میں ایک توازن پر مبنی ہو۔ ایسی پالیسی جو تعلیم کے فروغ میں بھی مددگار ہو، رابطے کی اجازت بھی دے اور بچوں کو محفوظ ماحول بھی مہیا کرے۔"
SEE ALSO: دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا استعمال؛ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟تحقیقی ادارے ’کامن سینس ایجوکیشن‘ کے مطابق اسمارٹ فون کے استعمال کو عملی طور پر مفید اور محفوظ بنانے کے طریقہ کار کا ایک اہم جزو ایپس کا انتخاب ہے۔ اسکولوں کو ان اپیس کے استعمال کی اجازت دینی چاہیے جو تعلیم کے حصول کو آسان بنائیں اور ان ایپس پر پابندی لگائیں جو خلل کا باعث بنتے ہوں۔
ڈاکٹر شائستہ آشائی کہتی ہیں تعلیمی شعبہ کے لیے ٹیکنالوجی کے شعبہ میں واپس لوٹنا کوئی آپشن نہیں ہے۔
"میرے نزدیک یہ واضح ہے کہ تعلیمی اداروں میں تمام ڈیجیٹل ڈیوائسز کے لیے ٹیکنالوجی فار لرننگ کا اصول نافذ ہونا چاہیے۔"