|
پاکستان کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں افغان طالبان پر تنقید کا معاملہ سیاسی اور سفارتی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر پاکستان افغان طالبان سے نالاں ہے جس کا اظہار عالمی فورم پر کیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے جمعرات کو اقوامِ متحدہ میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ القاعدہ اور افغان طالبان کے بعض عناصر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی معاونت کرتے ہیں اور اگر اس شدت پسند گروہ کو نہ روکا گیا تو یہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہو گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے جس بنا پر اسے دو طرفہ مسائل کو بھی عالمی فورمز پر لے جانا پڑ رہا ہے۔
منیر اکرم نے جمعرات کو افغانستان کے حوالے سے سلامتی کونسل میں بریفنگ کے دوران مطالبہ کیا کہ اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ ٹی ٹی پی نے جدید عسکری ساز و سامان کیسے حاصل کیا۔
مذاکرات میں تعطل
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے دو طرفہ مذاکرات میں تعطل پایا جاتا ہے جس بنا پر دونوں میں اپنی بات بنوانے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی وجہ سے، افغان مہاجرین اور سرحدی امور کے حوالے سے حالیہ عرصے میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے محدود مذاکرات زیادہ کامیاب نہیں رہے ہیں۔
منصور احمد خان کے بقول دنیا نے بھی دیکھا ہے کہ پاکستان کا افغان طالبان پر ماضی جیسا اثر و رسوخ نہیں رہا ہے جب دنیا اسلام آباد کے ذریعے طالبان سے بات چیت کیا کرتی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور سرحد پار دہشت گردی سے متعلق معاملات پر ضروری ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ وسیع البنیاد بات چیت ہو تاکہ باہمی تشویش اور دلچسپی کے تمام مسائل سے نمٹا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام افغان حکام کی جانب سے مطلوبہ تعاون کی راہ ہموار کرے گا جب کہ دونوں ممالک کو تجارت، ٹرانزٹ، رابطوں اور عوام کی نقل و حرکت کے فروغ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ادھرمنیر اکرم کے بقول ٹی ٹی پی کے اسلحے کے ذرائع کے ساتھ ساتھ اس کی مالی اعانت کے ذرائع کی نشاندہی کی جائے، ’جس کی وجہ سے اس کے 50 ہزار جنگجوؤں کو ان کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں مدد مل رہی ہے۔‘
پاکستان کے سفیر نے اقوامِ متحدہ سے کہا کہ ’وہ افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرے اور انہیں پاکستان کے خلاف سرحد پار سے حملے کرنے سے روکے۔
'اسلام آباد، کابل سے مایوس ہو رہا ہے'
افغان امور کے تجزیہ نگار طاہر خان کہتے ہیں کہ پاکستان کا اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کہ افغان طالبان پر ٹی ٹی پی سے تعلقات ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے اسلام آباد کی کابل سے مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل میں اس معاملے کو اٹھانے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دو طرفہ سطح پر طالبان پاکستان کے تحفظات دور نہیں کر پائے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو تشویش ہے کہ حالیہ عرصے میں ملک میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور ٹی ٹی پی افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے مسلسل حملے کر رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
طاہر خان کے بقول افغان طالبان یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ٹی ٹی پی کو ان کی حکومت کے عناصر کی مدد حاصل ہے اور اس صورتِ حال میں پاکستان کے پاس یہی راستہ رہ جاتا ہے کہ دنیا کے ذریعے طالبان پر دباؤ بڑھائے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب طالبان یہ سوچ رکھتے ہیں کہ دنیا مطالبے تو کرتی ہے لیکن کابل حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔
طاہر خان نے کہا کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی سے اب مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور اسلام آباد میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ طالبان حکومت پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ٹی ٹی پی کو استعمال کر سکتی ہے۔
'طالبان جب تک تحفظات دُور نہیں کرتے انہیں تسلیم کرنا مشکل ہو گا'
سلامتی کونسل کے اجلاس میں اقوامِ متحدہ نے بھی افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی پر اظہارِ تشویش کیا۔
افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے بارے میں پاکستان کو بھی تشویش ہے۔ طالبان جب تک وعدے پورے نہیں کرتے انہیں تسلیم کرنا مشکل ہو گا۔ طالبان خواتین پر ناروا پابندیاں ختم کریں اور انسانی حقوق کی پاسداری کریں۔
سلامتی کونسل کا یہ اجلاس افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مشن کی توسیع کے فیصلے کے لیے منقعد ہوا۔
اقوام متحدہ کے نمائندے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ افغانستان کی عبوری حکومت کے اندر اختلافات موجود ہیں جب کہ افغانستان میں بد امنی کے واقعات میں نومبر سے جنوری کے دوران 36 فی صد اضافہ ہوا ہے۔