جمعےکے دن اسپیکر کے انتخاب میں کئی روز سے جاری تعطل کے بعد اس وقت ایک ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی جب کیون میکارتھی نے اپنے ایک درجن سے زیادہ ساتھیوں کی رائے تبدیل کر کے انہیں اپنی حمایت پر آمادہ کر لیا، اور چوتھے دن وہ فتح کے قریب نظر آتے ہیں۔
چیمبر کے فریڈم کاکس کے چیئرمین سمیت قدامت پسند وں کے ووٹوں نے میکارتھی کو اسپیکر کے منصب کے قریب کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے سب سے زیادہ 213 ووٹ حاصل کیے تھے،تاہم وہ پھر بھی اکثریت سے کم تھے۔
13 ویں ووٹنگ تیزی سے شروع کی گئی جو اس بار بغیر کسی ریپبلکن چیلنجر کےصرف میکارتھی اور ڈیموکریٹک لیڈر کے درمیان تھی، جس کے نتیجے میں ریپبلکن ووٹ تقسیم ہونے سے بچ گئے۔
حیرت انگیز تبدیلی اس وقت آئی جب میکارتھی نے مخالفوں کے بہت سے مطالبات پر اتفاق کیا - بشمول ایوان کے ایک دیرینہ اصول کی بحالی کےجس کے نتیجے میں کسی بھی رکن کو اس کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ووٹ دینے کا موقع ملے گا۔
ان تبدیلیوں کا مطلب ہے کہ جس منصب کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اتنی محنت کی تھی وہ کسی حد تک کمزور ہو جائے گا۔
اس تعطل کے بارے میں ماہرین کیا کہتے ہیں؟
مبصرین کے مطابق اسپیکر کے انتخاب کے بظاہر سادہ نظر آنے والے عمل میں پیدا ہونے والا یہ ڈیڈ لاک امریکہ میں بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم کا عکاس ہے۔ لیکن ساتھ ہی امریکہ کے قانون ساز اداروں میں سیاسی جماعتوں کے کردار سے متعلق کئی دلچسپ حقائق سامنے لاتا ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں امریکہ میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں امریکی ایوانِ نمائندگان کے تمام 435 ارکان اور سینیٹ کے 100 میں سے 35 ارکان کا انتخاب ہوا تھا۔
امریکہ میں ایوانِ نمائندگان میں آبادی کےاتناسب ے نمائندگی دی جاتی ہے اور اس کے ارکان دو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔
منتخب ہونے والے ارکان جنوری میں کام کا آغاز کرتے ہیں۔البتہ نو منتخب ارکان کے حلف سے بھی پہلے ایوان کے اسپیکر کا انتخاب کیا جاتا ہے کیوں کہ بعد میں ایوان کی کارروائی اسپیکر ہی کی صدارت میں آگے بڑھتی ہے۔
انتخاب کا طریقہ
اسپیکر کے لیے ایوان میں رائے شماری سے قبل ایوانِ نمائندگان کی دونوں جماعتیں اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں۔ ارکان غیر رسمی طور پر اپنی جماعت کے امیدوار کی نامزدگی کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔
اگرچہ روایت یہ رہی ہے کہ اسپیکر کا امیدوار ایوان کا رکن ہوتا ہے لیکن اس انتخاب میں حصہ لینے کے لیے ایوان کا رکن ہونا ضروری نہیں ہے۔اسی لیے ماضی کے برسوں میں صدر جو بائیڈن، سابق صدر ٹرمپ اور ری پبلکن سینیٹر رینڈ پال ایوان کا رکن نہ ہونے کے باجود ان کے لیے اسپیکر کے انتخابات میں ووٹ ڈالے جاچکے ہیں۔
نو منتخب ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر کے لیے اسی طریقہ کار کے تحت ری پبلکن پارٹی سے کیون میکارتھی اور ڈیموکریٹک پارٹی سے حکیم جیفریز اکثریتی ووٹ لے کر اپنی اپنی جماعت کے امیدوار کے طور پر میدان میں اترے۔
واضح رہے کہ حکیم جیفریز امریکہ کی تاریخ میں ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر کے لیے نامزد ہونے والے پہلے سیاہ فام امیدوار ہیں۔
ہاؤس کا کورم مکمل ہونے پر امیدواروں کے لیے رائے شماری کا آغاز ہوتا ہے جس میں اعلانیہ ووٹ دیا جاتا ہے۔اسپیکر منتخب ہونے کے لیے ایوانِ نمائندگان کے 435 ارکان میں سے اکثریت یعنی 218 کی ارکان کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
اس وقت ایوان میں ری پبلکن اراکین کی تعداد 222 اور ڈیموکریٹس کی تعداد 213 ہے۔ بظاہر ری پبلکنز پارٹی کو ایوان میں حاصل برتری سے اسپیکر کا انتخاب آسان معلوم ہوتا ہے لیکن امریکہ میں ایوانِ نمائندگان کے ارکان اسپیکر کے لیے اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں ہیں۔
ارکان کو حاصل اسی اختیار کی وجہ سے اس وقت امریکہ میں اسپیکر کا انتخاب کا عمل طول پکڑ رہا ہے کیوں کہ ری پبلکن پارٹی کے 19 سے 20 ارکان اپنی پارٹی کے نمائندے کیون میکارتھی کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
بار بار ووٹنگ کیوں ہورہی ہے؟
امریکہ میں ایوان کے منتخب ارکان کسی بھی سیاسی، فکری یا نسلی وابستگی کی بنیاد پر ’کاکس‘ یا انجمن بنا لیتے ہیں۔ اس میں کسی ایک ہی جماعت کے ارکان بھی ہوتے ہیں اور مختلف جماعتوں کے ارکان بھی ایک کاکس بنا سکتے ہیں۔
میکارتھی کی مخالفت کرنے والے 19 سے 20 ارکان کا تعلق ’ہاؤس فریڈم کاکس‘ سے ہے۔ یہ ری پبلکن پارٹی کے قدامت پسند ارکان کی کاکس ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد 50 کے قریب بتائی جاتی ہے۔
اس کاکس کے ارکان امریکی نظامِ حکومت کے ناقد ہیں اور انہیں ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان ارکان نے کیون میکارتھی کی بطور اسپیکر نامزدگی کی بھی مخالفت کی تھی۔ امریکی میڈیا میں انہیں ’نیور میکارتھی‘ گروپ بھی کہا جارہا ہے۔
ان ارکان کے نزدیک کیون میکارتھی، ان کے بقول امریکہ کے ناقص نظامِ حکومت کے حامی ہیں جب کہ یہ کاکس سیاسی و معاشی نظام میں تبدیلیوں کی خواہاں ہے۔
رواں برس تین جنوری کو ایوانِ نمائندگان کے اجلاس میں جب اسپیکر کے انتخاب کے لیے رائے شماری کا آغاز ہوا تو ان ارکان نے کیون میکارتھی کو ووٹ نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ انتخاب جیتنے کے لیے مطلوبہ 218 ووٹ حاصل نہیں کرپائے تھے۔
اس کے مقابلے میں ڈیموکریٹ امیدوار حکیم جیفریز نے اپنی جماعت کے 212 ووٹ حاصل کیے لیکن دونوں ہی امیدوار 218 کا اکثریتی نمبر حاصل نہیں کرسکےہیں جس کی وجہ سے بار بار ووٹنگ کرائی جارہی ہے۔
اب تک اسپیکر کے انتخاب کے لیے رائے شماری کے 11 ادوار ہوچکے ہیں لیکن میکارتھی اپنی جماعت کے 222 ارکان ہونے کے باوجود اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
جب 133 بار ووٹنگ ہوئی
ماضی میں امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں اسپیکر کے انتخاب کے لیے ایک سے زائد بار ووٹنگ کی نوبت 100 سال قبل 1923 میں پیش آئی تھی۔
اس وقت بھی ری پبلکن پارٹی کے منحرف ارکان نے اپنی جماعت کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا تھا جس کی وجہ سے رائے شماری کے نو راؤنڈ ہوئے تھے۔
تاہم اسپیکر کا طویل ترین الیکشن 1855 میں ہوا تھا جب اسپیکر کے انتخاب کے لیے دو ماہ تک ووٹنگ جاری رہی تھی جس میں رائے شماری کے 133 راؤنڈ ہوئے تھے ۔
دسمبر 1855 میں ایوانِ نمائندن کے اسپیکر کے لیے غلامی برقرار رکھنے کے حامی ڈیموکریٹ امیدوار ولیم رچرڈسن اور غلامی ختم کرنے کی حمایت کرنے والے ری پبلکن امیدوار نتھینئل بینکس آمنے سامنے تھے۔
SEE ALSO: مڈ ٹرم الیکشن: امریکہ میں ہر دو سال بعد انتخابی میدان کیوں سجتا ہے؟اس وقت ایوانِ نمائندگان کے ارکان کی تعداد کے اعتبار سے اسپیکر کا انتخاب جیتنے کے لیے 113 ووٹ حاصل کرنا ضروری تھا۔ تاہم غلامی کے خاتمے پر پائے جانے والے سیاسی اختلافِ رائے کی وجہ سے کوئی امیدوار مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔
ایوانِ نمائندگان کی تاریخ کے مطابق 33 ویں بار ہونے والی رائے شماری میں نتھینئل بینکس 100 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوپائے تھے۔ لیکن اس کے بعد بھی رائے شماری کے مزید 100 راؤنڈ ہوئے۔
فروری 1855 تک بعض ڈیموکریٹ ارکان کی رائے میں تبدیلی آئی لیکن پھر بھی کوئی امیدوار اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
اس مسلسل تاخیر کے بعد کانگریس نے طے کیا کہ اکثریت کے بجائے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار ہی کو کامیاب قرار دے دیا جائے۔اس طرح فروری میں بینکس 103 ووٹ لے کر ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر بننے میں کامیاب ہوئے۔ انہیں اپنے مدمقابل پر صرف تین ووٹوں کی برتری حاصل ہوسکی تھی۔
ایوانِ نمائندگان کی ویب سائٹ کے مطابق اس سے قبل 1849 میں ووٹنگ کے 63، 1859 میں 44 اور 1819 میں 22 راؤنڈ ہونے کے بعد اسپیکر کا انتخاب ہوا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ایوانِ نمائندگان میں اسپیکر کے انتخاب کے موقع پر ایوان کی رائے منقسم ہونے سے ان ادوار کے سیاسی حالات کی عکاسی ہوتی تھی۔ اسپیکر کے الیکشن کی حالیہ صورتِ حال بھی امریکہ میں بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم کو واضح کرتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سیاسی مبصرین کے مطابق میکارتھی اسپیکر بننے میں کامیاب ہوبھی جاتے ہیں تو سیاسی تقسیم کی وجہ سے ایوان پر ان کی گرفت کمزور رہے گی۔
اس تحریر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے’رائٹرز‘ اور’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔