پاکستان میں بعض عناصر افغانستان میں آنے والی حالیہ تبدیلی کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق وہ پاکستان میں بھی ایسی ہی تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔
اسلام آباد کی مشہور لال مسجد اور مدرسے جامعہ حفصہ کی عمارت پر جھنڈے لہرا کر طالبان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا گیا تھا۔
پاکستان کی مختلف دینی جماعتوں نے بھی طالبان کے حکومت میں آنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مبارک باد دی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے پاکستان میں انتہا پسند عناصر کے دوبارہ سر اٹھانے کا خطرہ بڑھا ہے۔ کیوں کہ یہاں موجود عناصر افغان طالبان کی کامیابی کو مستقبل میں اپنی کامیابی کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ حکومت نے اس بارے میں اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔
حالیہ دنوں میں لال مسجد سے منسلک جامعہ حفصہ کے مولانا عبدالعزیز نے مدرسے پر طالبان کے جھنڈے لہرائے تھے اور اب گزشتہ دنوں ان کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں وہ اسلام آباد کے پولیس اہلکاروں کو پاکستانی طالبان کے آنے سے متعلق دھمکی دے رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر زیرِ گردش اس ویڈیو پر شدید تنقید کی گئی اور مولانا عبدالعزیز پر مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔
اس بارے میں وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں 511 مدارس ہیں اور صرف ایک مدرسے میں یہ مسئلہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ہم ایسے افراد کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بتایا کہ جامعہ حفصہ سے منسلک افراد کے ساتھ بھی بات چیت جاری ہے اور معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
’دباؤ برقرار رکھنا چاہیے‘
تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے عناصر زیادہ بڑھ سکتے ہیں لیکن فی الحال ایسا خطرہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں تشدد کے کچھ نئے واقعات سامنے آئے ہیں لیکن فوری طور پر کوئی بڑا خطرہ سامنے نظر نہیں آرہا۔
تجزیہ کار اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق سربراہ ڈاکٹر ہمایوں خان نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انتہا پسند عناصر کے دوبارہ زور پکڑنے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کابل میں طالبان کے آنے سے قبل بھی یہ خطرہ موجود تھا کہ طالبان کی کامیابی کو سپرپاور کو شکست دینے سے تعبیر کیا جائے گا۔ اس لیے پاکستان میں ان کے حامیوں کے پرجوش ہونے کا اندازہ پہلے بھی تھا۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے بھی افغانستان میں طالبان کے قبضہ کے بعد قبائلی علاقوں میں شرعی نظام نافذ کرنے کی بات کی تھی۔
حسن عسکری کا کہنا ہے کہ تمام تشدد کے واقعات کو طالبان سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں اگست اور ستمبر میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹی ٹی پی کی طرف سے جو واقعات سامنے آئے ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ طالبان اپنی موجودگی دکھانا چاہتے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان میں یہ خطرہ طالبان کے افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے سے پہلے بھی موجود تھا اور اب بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان خطرات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ خفیہ ادارے مزید فعال ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ اپنی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق طالبان کی حکومت خود اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو پائی لیکن ان پر دباؤ برقرار رکھنا چاہیے۔
’کچھ سیاسی جماعتیں طالبان کی ہم مسلک ہیں‘
سیاسی مذہبی جماعتوں کے طالبان کے خیر مقدم کے سوال پر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان نے بھی ایسا کیا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کچھ سیاسی جماعتیں طالبان کی ہم مسلک ہیں۔ اس وجہ سے وہ ان کی حامی ہیں۔ لیکن وہ ماضی میں بھی ایسا کرتی رہی ہیں۔
حسن عسکری کا کہنا ہے کہ بعض مذہبی سیاسی جماعتیں جو طالبان کی ہم مسلک نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ان کے مقصد کی تائید کر رہی ہیں۔ ایسی جماعتوں کی حمایت کے اپنے مقاصد ہیں۔
ڈاکٹر ہمایوں نے کہا کہ وزیراعظم نے بھی اس بارے میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی اور اس میں انتہا پسند عناصر کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ ایپکس کمیٹی کا اجلاس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت اس خطرہ کو سنجیدہ لے رہی ہے۔ پاکستان میں بھی اس بارے میں تحفظات موجود ہیں کہ ایسی تنظیمیں دوبارہ سر اٹھا سکتی ہیں۔
سیاسی مقاصد؟
جے یو آئی ف کی طرف سے طالبان حکومت کو خوش آمدید کہنے کے سوال پر ڈاکٹر ہمایوں نے کہا کہ ان کے پیغام کو میں اس وجہ سے سنجیدہ نہیں لیتا کہ ان کی سیاسی مہم پی ڈی ایم ناکام ہوئی جس کا انہیں سیاسی نقصان ہوا۔
ان کے بقول جے یو آئی ایف اپنے اس سیاسی نقصان کو پورا کرنے کے لیے اور خود کو سیاست میں متعلق رکھنے کے لیے ایسا بیان دیا ہے۔ ورنہ مولانا فضل الرحمن پر ٹی ٹی پی کی طرف سے دو تین مرتبہ قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان: 'شدت پسند گروہوں کے خاتمے کے لیے متوازی بیانیے کی ضرورت ہے'ڈاکٹر ہمایوں نے کہا کہ وہاں طالبان کا ایک سپرپاور کو شکست دینے کا تاثر پاکستان میں موجود انتہا پسند عناصر کو حوصلہ دے سکتا ہے کہ اگر امریکہ کو شکست دی جاسکتی ہے تو پاکستان میں بھی گوریلا جنگ کو جاری رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کو ہرایا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی انتہا پسند عناصر سے نمٹنے کی پالیسی پر دوبارہ سے سختی سے عمل درآمد کرانا ہوگا۔