افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں 20 برس تک جاری رہنے والی جنگ کے خاتمے کے بعد یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ القاعدہ اور دیگر شدت پسند گروہوں کی جانب سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو نشانہ بنانے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان سے پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کو بدستور خطرات لاحق ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک ماہ کے دوران پاکستان کے قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ علاقائی ممالک کے لیے خطرات بدستور موجود ہیں۔
اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری تھنک ٹینک 'پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز' کے سربراہ محمد عامر رانا کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برس کے دوران القاعدہ کافی حد تک کمزور ہوئی ہے اور اگر عراق میں غلطیاں نہ ہوتیں تو القاعدہ جیسے شدت گروپ مکمل طور پر ختم ہو چکے ہوتے۔
عامر رانا کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ صورتِ حال کو دیکھیں تو القاعدہ بہت کمزور ہے اور اس کے سربراہ ایمن الظواہری کے بارے میں وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا وہ زندہ ہیں۔
کراچی یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی امور کے سربراہ نعیم احمد کا کہنا ہے کہ امریکہ میں نائن الیون کے بعد افغانستان میں فوجی کارروائی کا ایک مقصد القاعدہ اور دیگر دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنا تھا لیکن ان کے بقول القاعدہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
نعیم احمد کا کہنا تھا کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکی آپریشن میں ہلاکت کے باوجود القاعدہ کا نیٹ ورک موجود رہا اور اس کے القاعدہ مغرب، القاعدہ برِصغیر کے نام سے نیٹ ورکس سامنے آئے جب کہ القاعدہ سے الگ ہونے والے بعض شدت پسند داعش میں شامل ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی صورتِ حال نہایت پیچیدہ ہے اور علاقائی ممالک بشمول چین اور پاکستان کو یہ تشویش ہے کہ اگر افغانستان میں استحکام نہ آیا تو بعض شدت پسند گروپوں کو منظم ہونے کا موقع مل سکتا ہے جو ان کے لیے خاص طور پر خطرہ ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان اپنی سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ لیکن اُن کے بقول طالبان کے لیے افغانستان میں سرگرم شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
نعیم احمد کہتے ہیں کہ چین کو افغانستان کے صوبے بدخشاں میں سرگرم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (آئی ٹی آئی ایم) سے خطرات ہیں جب کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بدستور پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔
البتہ عامر رانا سمجھتے ہیں کہ سرِ دست دہشت گردی کی نئی لہر شاید نہ آئے، لیکن علاقائی سطح پر کچھ واقعات کا خدشہ موجود رہے گا۔
عامر رانا کہتے ہیں کہ اگر دنیا طالبان حکومت کو معاشی مدد کی یقین دہانی کراتی ہے تو اُن کا رویہ بھی مثبت ہو گا۔ لیکن اگر دنیا نے انہیں نظر انداز کیا تو افغانستان میں شہری حقوق کی تحریک شروع ہو سکتی ہے جس میں القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسے گروپ بھی طالبان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔
اُن کے بقول اس ممکنہ گروپ کا محور افغانستان ہی رہے گا، لیکن پاکستان اس سے متاثر ہو سکتا ہے۔
عامر رانا کا کہنا ہے کہ اگر طالبان کو اس بات کی ضمانت دی جاتی ہے کہ انہیں تسلیم کیا جائے گا یا ان کے ساتھ روابط قائم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اقتصادی امداد دی جاتی ہے تو طالبان تعاون پر تیار ہو سکتے ہیں۔
کیا انسدادِ دہشت گردی کا علاقائی اتحاد مؤثر ہو سکتا ہے؟
نعیم احمد کا کہنا ہے کہ اگر انسدادِ دہشت گردی کے لیے علاقائی ممالک کا اتحاد بنتا ہے تو پھر بھی طالبان کی حکومت کے لیے یہ مؤثر نہیں ہوگا کیوں کہ پاکستان میں شدت پسند گروہوں کے دوبارہ فعال ہونے کا خطرہ افغانستان سے ہی ہے۔
پاکستان اپنے طور پر ٹی ٹی پی کو ختم کرنے لیے ہر طرح کے اقدامات کر رہا ہے۔ صدرِ پاکستان عارف علوی نے حال ہی میں کہا تھا کہ حکومت ٹی ٹی پی کے ان افراد کو عام معافی دینے پر غور کر سکتی ہے جو شدت پسندی کا نظریہ ترک کر کے آئینِ پاکستان کی پاسداری کریں گے۔
دوسری جانب ٹی ٹی پی نے عام معافی کی کسی بھی قسم کی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔
لیکن عامر رانا کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کا مزاج ایسانہیں کہ وہ عام معافی قبول کر کے شدت پسندی کو چھوڑ دیں۔ ان کے قبول ماضی میں بھی حکومت کی جانب سے عام معافی کے عندیے کے باوجود ٹی ٹی پی نے اسے قبول نہیں کیا تھا۔
تجزیہ کار نعیم احمد کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی سے منسلک شدت پسند عناصر کے لیے اپنا نظریہ چھوڑنا شاید اتنا آسان نہ ہو کیوں کہ ان کا نظریہ اور مقاصد ان کی مذہب کی اپنی تعبیر پر مبنی ہے۔
نعیم احمد کا کہنا ہے کہ شدت پسند گروپوں کو ختم کرنے کے لیے سیکیورٹی اقدامات کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک متوازی بیانیے کی بھی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کے نوجوانوں کو شدت پسندی کی سوچ کی طرف راغب ہونے سے روکا جا سکے۔