فیس بک کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ اس نے 24 گھنٹے مسلسل کام کرنے والا ایک ایسا خصوصی سینٹر قائم کیا ہے جو کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع کے حوالے سے اس کے پلیٹ فارم پر شیئر ہونے والے مواد پر کارروائی کرے گا۔
فیس بک کی انتظامیہ نے بدھ کو جاری بیان میں واضح کیا ہے کہ ’اسپیشل آپریشن سینٹر' گزشتہ ہفتے ہی قائم کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق سوشل میڈیا پر اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع کے حوالے سے نفرت انگیز مواد تیزی سے شیئر ہو رہا ہے جس میں پرتشدد لڑائی میں تیزی کے لیے بیانات یا ایسے عمل پر اکسانے والا مواد بھی شامل ہے۔
فیس بک کی ’کانٹینٹ پالیسی‘ کی نائب صدر مونیکا بیکرٹ نے ایک میڈیا بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ فیس بک کا آپریشن سینٹر صورتِ حال کا بغور جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کے بقول فیس بک کی پالیسی سے متصادم مواد کو فوری طور پر ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دوران اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس کو بھی درست کیا جا سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
فیس بک اس سے قبل بھی اس طرح کے خصوصی آپریشن سینٹرز قائم کرتا رہا ہے۔ ایسے سینٹرز عمومی طور پر کسی ملک میں ہونے والے انتخابات کے موقع پر قائم کیے جاتے رہے ہیں تاکہ اس دوران غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
فیس بک کے ترجمان اینڈی اسٹون نے ’رائٹرز‘ کو آگاہ کیا کہ فیس بک کے بین الاقوامی معاملات کے سربراہ نِک کلیج اور دیگر اعلیٰ حکام نے منگل کو فلسطینی وزیرِ اعظم محمد اشتیہ سے ملاقات کی تھی۔
قبل ازیں فیس بک کے حکام نے اسرائیل کے وزیرِ دفاع بینی گینز سے بھی آن لائن ملاقات کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع میں ’غزہ کی پٹی‘ اتنی اہم کیوں ہے؟
کیا اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع سے بین المذاہب مکالمے کو نقصان پہنچ رہا ہے؟
یروشلم کے مقدس مقامات کی اہمیت اور تاریخ کیا ہے؟
فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر پر حالیہ تنازع کے دوران کچھ ایسا مواد بھی سامنے آ چکا ہے جس کے حالیہ تنازع سے تعلق نہیں تھا۔ البتہ اس مواد کو تنازع سے جوڑا گیا تھا۔
امریکہ کے اخبار ’دی نیویارک ٹائمز‘ نے بدھ کو ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بعض انتہا پسند یہودیوں نے فیس بک اور واٹس ایپ پر ایسے خفیہ گروپس بنائے ہیں جن میں فلسطینیوں کے خلاف تشدد پر اکسانے والا مواد شیئر کیا جائے۔
واٹس ایپ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بطور ایک پرائیوٹ میسجنگ سروس ہم کسی بھی ایسے مواد تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے جو کہ کوئی بھی شخص ذاتی طور پر شیئر کر رہا ہے۔ البتہ جب ایسا محسوس ہو کہ کسی عمل سے نقصان ہو سکتا ہے تو کارروائی کی جاتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ واٹس ایپ کے پاس محدود معلومات ہوتی ہیں۔ ایسے میں دستیاب معلومات متعلقہ مقامی انتظامیہ کو فراہم کر دی جاتی ہے تاکہ وہ مزید مناسب کارروائی کر سکے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ وہ سنسر شپ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
’رائٹرز‘ کے مطابق فیس بک نے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے والی تنظیم 'حماس' پر اپنے پلیٹ فارم پر پابندی عائد کی ہوئی ہے اور اس کے حق میں لگنے والے مواد کو بھی ہٹا دیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور یورپی یونین نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
فیس بک پر قبل ازیں الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ اس کے پاس مختلف زبانوں کے ماہرین نہ ہونے کی وجہ سے کئی ممالک میں پر تشدد تنازعات میں شیئر ہونے والے مواد کی مؤثر انداز سے نگرانی نہیں کی جا سکی۔
تاہم فیس بک کی انتظامیہ کے مطابق انہوں نے حالیہ قائم کیے گیے اسپیشل سینٹر میں عبرانی اور عربی زبان کے ماہرین کو شامل کیا ہے۔ تاکہ وہ پلیٹ فارم پر شیئر ہونے والے مواد پر نظر رکھ سکیں۔