|
بنگلہ دیش میں حقائق کی جانچ کرنے والے محققین شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد ہجوموں کے تشدد کی رپورٹنگ کرنے والے سوشل اور مین اسٹریم میڈیا کی متعدد ایسی رپورٹس کو غلط قرار دے رہے ہیں جن میں کہا گیاہےکہ ملک کی ہندو اقلیت کو ان کے عقیدے کی وجہ سے ہدف بنایا گیا تھا۔
وہ خبریں جرمنی اور برطانیہ کے دور دراز ٓؤٹ لیٹس میں شائع ہوئی تھیں،جہاں سات اگست کو گارڈین نے خبر دی تھی کہ بھارت کے سوشل میڈیا پر ہجوموں کے ہاتھوں ہندوؤں کے مارے جانے، مندروں کو جلائے جانے اور کاروباروں کی لوٹ مار کی تصاویر کی بھر مار ہو گئی ہے، اگرچہ حملوں کے مکمل پیمانے کا ابھی پتہ نہیں چلا ہے ۔
امریکہ میں بنگلہ دیشی امریکی ہندوؤں نے ڈیٹرائٹ میں ایسے بینرز کے ساتھ مارچ کی جن پرلکھا تھا کہ "ہندوؤں کو مارنا بند کرو" اور بھارتی نژاد امریکی قانون ساز رو کھنہ نے اس ماہ فیس بک اور یوٹیوب پر مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے تحفظ کے اقدام کرے۔
یہ الارم ہندو اکثریت کے حامل بھارت میں سب سے زیادہ شدت سے سنائی دیا، جہاں دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے اتر پردیش، مہاراشٹر اور دوسری ریاستوں میں ان حملوں پر احتجاج کے لیے ریلیاں نکالیں ،جو بقول ان کے "ہندوؤں پر اسلام پسندوں کےفرقہ وارانہ حملے" تھے۔
خود بنگلہ دیش میں، ہندو، بودھوں اور مسیحیوں کے اتحاد کی انٹر نیشنل بین العقائد کونسل،،’انٹر فیتھ ہندو بودھسٹ کرسچن یونٹی کونسل‘ نے بھی خطرے کے احساس کو تسلیم کیا ۔ کونسل نے 9 اگست کو ایک کھلے خط میں کہا، "ملک بھر کی اقلیتیں سخت تشویش، پریشانی اور غیر یقینی کیفیت میں ہیں۔"
نوبل انعام یافتہ، محمد یونس کی زیر قیادت بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اقتدارسنبھالنے کے فوراً بعد ایک باضابطہ بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ’’کچھ مقامات پر مذہبی اقلیتوں پر حملوں کو گہری تشویش کے ساتھ نوٹ کیا گیا ہے۔‘‘
رائٹرز کے مطابق بیان میں کہا گیا کہ نئی کابینہ " فوری طور پر نمائندہ اداروں اور دوسرے متعلقہ گروپس کے ساتھ بیٹھ کر ایسے قابل نفر ت حملوں کے سدباب کے طریقے تلاش کرے گی ۔‘‘
SEE ALSO: بنگلہ دیش: عبوری انتظامیہ کے سربراہ محمد یونس کا مذہب کی بنیاد پر تفریق سے گریز پر زوررپورٹنگ کے برعکس حقائق کیا بتاتے ہیں؟
یہ بات تو واضح ہے کہ ہجوموں کے تشدد میں لوگ ہلاک ہوئے اور عمارتیں جلائی گئیں، لیکن حقائق کی جانچ کرنے والے بنگلہ دیشی تفتیش کاروں کے تفصیلی تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر متاثرین کو ان کے عقیدے کی وجہ سے نہیں بلکہ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ سے وابستگی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیاتھا جس سے بڑے پیمانے پر نفرت پائی جاتی تھی۔
بنگلہ دیش میں ہندوؤں نے بھاری اکثریت سے حسینہ اور ان کی جماعت کی حمایت کی تھی جس کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔
ڈھاکہ میں قائم حقائق کی جانچ کرنے والی تنظیم، ’ڈسمس لیب‘ کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ منہاج امان نے وائس آف امریکہ کو ٹیلی فون پر ایک انٹرویو میں بتایا کہ"شیخ حسینہ کے زوال کے بعد، لوگوں نے اپنا غصہ پولیس اور اس کی پارٹی کے مسلمان اور ہندو دونوں ارکان پر نکالا۔ لہٰذا ہجوموں نے جماعت سے وابستہ افراد پر حملہ کرتے ہوئے کچھ ہندو گھرانوں پر بھی حملہ کیا۔"
بنگلہ دیش میں مقیم فرانسیسی خبر رساں ادارے سے وابستہ حقائق کی جانچ کرنے والے تفتیش کار قادرالدین ششیر نے کہا، " ممکن ہے کہ ہجوم میں چھپے کچھ لوگوں نے بعض گھرانوں کو صرف گھرکا سامان لوٹنے یا چوری کرنے کے لیے نشانہ بنایا ہو، جیسا کہ چھوٹے جرائم پیشہ افراد کرتے ہیں۔‘‘
ششیر نے کہا۔"لیکن زیادہ تر حملے سیاسی بنیاد پر کیے گئے ، جن میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ان ہندوؤں کو بھی نشانہ بنایا گیا جو عوامی لیگ سے وابستہ تھے۔ یہ حملے کسی مذہبی وجہ سے نہیں کیے گئے تھے۔‘‘
لگ بھگ دو درجن ہندو مذہبی تنظیموں پر مشتمل، بنگلہ دیش نیشنل ہندو گرینڈ الائنس نے بھی مذہبی محرک نہ ہونے کو تسلیم کیا ہے۔
الائنس نے کہا کہ اس کے اکٹھے کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق ہجوموں نے ہندوؤں کی 278 املاک کی توڑ پھوڑ کی لیکن اس کے سیکرٹری جنرل گوبندا پرمانک نے وی او اے کو بتایا کہ 5 اگست کے بعد ہجوموں نے عوامی لیگ کے حامی مسلمان گھرانوں پر اس سے "پانچ سے سات گنا زیادہ" حملے کئے۔
پرمانک نے ٹیلی فون پر کہا ،"تقریباً تمام حملوں کی وجہ سیاسی تھی ۔ بھارتی میڈیا نے انہیں غلط طور سے فرقہ وارانہ ہندو مخالف حملے قرار دیا۔ بنگلہ دیش میں، مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی موجودنہیں ہے۔‘‘
پرمانک کا کہنا تھا "کچھ ہندوؤں نے کہا کہ وہ 5 اگست کے بعد دو تین دن تک بہت سے ہندو مندروں کی حفاظت کے بارے میں فکر مند تھے۔ ہمارے مسلمان بھائی ملک بھر میں بہت سے ہندو مندروں کے سامنے پہرے دیتے ر ہے ۔‘‘
فسادات سے سامنے آنے والی کچھ انتہائی سنسنی خیز تصاویر اور رپورٹس غلط یا گمراہ کن ہیں۔
ایک بھارتی آؤٹ لیٹ ’ریپبلک ٹی وی‘ نے چٹاگانگ میں ایک مندر کی ویڈیو براڈ کاسٹ کی، جس کے بارے میں اس نے کہا کہ اسے"بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں" نے نذر آتش کر دیا تھا۔ لیکن ’ڈسمس لیب ‘میں حقائق کی جانچ کرنے والے محققین نےاس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔
ڈسمس لیب کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ منہاج امان نے کہا کہ ،"مندر کے نگران نے ہمیں بتایا کہ مندر پر قطعی طور پر کوئی حملہ نہیں ہوا تھا۔ ایک ہجوم نے اس سے ملحق عوامی لیگ کے دفتر کے فرنیچر کو آگ لگا دی تھی اور وہ نہیں جانتے کہ مندر پر ’آتشزدگی‘ کی افواہ کیسے پھیلی۔‘‘
وائس آف امریکہ نے یہ پوچھنے کے لیے ریپبلک ٹی وی سے رابطہ کیا کہ آیا وہ اب بھی اپنی رپورٹ پر قائم ہے؟، لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر وائرل ہونےوالی ایک اور پوسٹ میں ایک جلتے ہوئے گھر کی ویڈیو کو "ثبوت" کے طور پر شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک ہجوم نے بنگلہ دیش کی قومی ٹیم کے ایک ہندو کرکٹر لٹن داس کے گھر کو آگ لگا دی تھی ۔
حقائق کی جانچ کرنے والے ریسرچر، شیشیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا "حقائق کی جانچ پڑتال پر، ہمیں معلوم ہوا کہ لٹن داس کے گھر کو آگ نہیں لگائی گئی تھی۔ پولیس نے تصدیق کی کہ ویڈیو میں جلنے والا گھر عوامی لیگ کے ایک رکن پارلیمنٹ، بنگلہ دیش کے سابق مسلمان کرکٹر مشرفی مرتضیٰ کا تھا۔ ‘‘
شیخ عزیز الرحمان وی او اے۔