|
بنگلہ دیش میں نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے جماعتِ اسلامی پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق عبوری حکومت نے بدھ کو پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا۔ جماعتِ اسلامی پر سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت میں پابندی عائد کی گئی تھی۔
شیخ حسینہ رواں ماہ کے آغاز میں پانچ اگست کو مستعفی ہو کر بھارت منتقل ہو گئی تھیں اور اب بھی وہاں کسی محفوظ مقام پر مقیم ہیں۔ شیخ حسینہ نے اپنی وزارتِ عظمیٰ میں جماعتِ اسلامی پر یہ کہہ کر پابندی عائد کی تھی کہ جماعت اسلامی، اس کی طلبہ تنطیم اور اس سے وابستہ دیگر ادارے حکومت کے خلاف جاری احتجاج میں لوگوں کو انتشار پر اکسا رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف حالیہ احتجاج میں لگ بھگ چھ سو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ احتجاج سرکاری نوکریوں میں کوٹے کے خلاف طلبہ کی جانب سے شروع کیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش کی وزارتِ داخلہ نے بدھ کو جماعتِ اسلامی پر پابندی کے حکم نامے کو منسوخ کیا۔
وزارتِ داخلہ کے حکم نامے کی منسوخی کے بعد جماعتِ اسلامی کو ایک بار پھر سرگرمیاں بحال کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ البتہ جماعتِ اسلامی کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کرانی ہو گی۔
جماعتِ اسلامی پر پابندی ختم ہونے کے بعد اس کے رہنماؤں نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
جماعت اسلامی پر 2013 سے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی رہی ہے۔ اُس وقت الیکشن کمیشن نے اس کی رجسٹریشن منسوخ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جماعتِ اسلامی کے منشور میں سیکولرازم کی مخالفت کی گئی جو ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ بعد ازاں ہائی کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
بنگلہ دیش کے مشیرِ قانون آصف نذرل کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ نے پابندی نظریاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی بنیاد پر عائد کی تھی۔
شیخ حسینہ کی سیاسی حریف سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے بھی گزشتہ حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے جماعتِ اسلامی پر پابندی اس لیے لگائی تھی تاکہ احتجاج میں سیکیورٹی فورسز کے بدترین تشدد سے مظاہرین کی اموات سے توجہ دوسری جانب مبذول کرائی جا سکے۔
ڈاکٹرمحمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت ملک میں سیاسی استحکام اور امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ ملک میں شدید بارشوں سے بھی صورتِ حال ابتر ہے اور سیلاب سے لگ بھگ دو درجن افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
شیخ حسینہ رواں برس جنوری میں ہونے والے انتہائی متنازع انتخابات میں مسلسل چوتھی بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئی تھیں۔ الیکشن سے قبل شیخ حسینہ نے اپوزیشن کے عبوری حکومت کی نگرانی میں انتخابات کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔
ان کی حکومت نے انتخابات سے قبل حزبِ اختلاف کے اکثر رہنماؤں اور ہزاروں کارکنان کو گرفتار کر لیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی الزام عائد کیا تھا کہ ان کی حکومت سیکیورٹی اداروں اور عدلیہ کو استعمال کرکے حزبِ اختلاف کو دبا رہی ہے۔
شیخ حسینہ اور ان کی حکومت نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی کا قیام 1941 میں ہوا تھا۔ اس نے 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی مخالفت کی تھی اور اس کو روکنے کی مہم میں حصہ لیا تھا۔
شیخ حسینہ کی حکومت میں 2013 میں اچانک ملک میں یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ جماعتِ اسلامی کی قیادت کو 1971 کی آزادی کی جنگ میں ہونے والے جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر سزا دی جائے۔
اس کے بعد جماعت اسلامی کے اکثر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا جن پر ایک متنازع ٹریبیونل میں مقدمات چلائے گئے اور متعدد رہنماؤں کو پھانسی دی گئی جب کہ بیشتر کو قید کی سزا سنائی گئی۔
مشرقی پاکستان 1971 میں نو ماہ تک لڑی جانے والی جنگ کے بعد بنگلہ دیش بنا تھا۔ اس جنگ میں جماعتِ اسلامی نے مسلح گروپ بنا کر پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ بعد ازاں بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش یہ جنگ جیتنے میں کامیاب رہا اور 16 دسمبر 1971 کو اپنی آزدی کا اعلان کر دیا۔
بنگلہ دیش کا دعویٰ ہے کہ اس جنگ میں لگ بھگ 30 لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ دو لاکھ خواتین سے زیادتی کی گئی تھی۔ جنگ میں ایک لاکھ افراد ہجرت کرکے بھارت بھی نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔