جامنی رنگ کے کمبل میں لپٹی ، ایک مسلح شخص کے پہرے میں ایک گولف کارٹ میں بیٹھی سفید بالوں والی ایک اسرائیلی خاتون کی تصویر اسرائیل پرحماس کی جانب سے سات اکتوبر کے حملے کے دوران پکڑے گئے یرغمالوں میں سے کسی ایک کی سامنے آنے والی پہلی تصویر تھی۔
اس کے بعد سے یرغمالوں کی تصاویر اور حالات زندگی کے بارے میں اسرائیلی میڈیا پر بہت کچھ پوسٹ کیا جارہا ہے لیکن ان یرغمالوں کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد فلسطینیوں کی اموات کی خبروں نے یرغمالوں کی خبروں کی جگہ لے لی ہے اور انہیں فکرہے کہ ان یرغمالوں کی خبریں پرانی ہو گئیں تو ان کی رہائی کی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں ۔
اسی لیے ان خاندانوں نےاپنے عزیز یرغمالوں کی رہائی پر زور دینے کے لیے اسرائیل سے نکل کر دنیا بھر کے ملکوں کے مختلف شہروں کےدورے شروع کر دیے ہیں جن میں پیرس، اٹلانٹا، لندن، شکاگو اور وی آنا شامل ہیں جہا ں انہیں امید ہے کہ ان کا دوستانہ طور پر خیر مقدم کیا جائے گا۔
اس مہم میں ایک اسرائیلی یرغمال یافا آدر کی پوتی اور اس کے بھائی سمیت بہت سے یرغمالوں کے رشتے دار شامل ہیں۔ ادوا آدر کا کہنا ہے کہ انہیں یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ یہ خبر پرانی ہو جائے گی اور ان کی دادی ہمیشہ یرغمال رہیں گی۔
منگل کے روز پیرس میں ایک نیوز کانفرنس میں آئیلٹ سیلا نے، جن کے خاندان کے سات افراد غزہ میں یرغمال ہیں ، کہا کہ ، ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ کسی بھی چیز سے پہلے یرغمالوں کو واپس لایا جائے اور گفتگو صرف اسی موضوع پر ہونی چاہئے ۔
اٹلانٹا جارجیا میں ایک تقریب میں جس میں چھ اسرائیلی یرغمالوں کے رشتے دار خاندان اکٹھے ہوئے تھے ایک اسرائیلی یرغمال کی عزیز شانی سیگل نے جارجیا کے قانون سازوں کے سامنے اپنے یرغمال عزیزوں کی رہائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کو اسرائیلی یرغمالوں کی حالت زار کو ترجیح بنانا چاہیے ۔
حماس نے، جسے امریکہ دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے ، کہا ہے کہ اس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے دوران جن لوگوں کو اغوا کیا تھا ان میں سے صرف غیر اسرائیلی شہریوں کو رہا کرے گا جن کا تعلق 28 ملکوں سے ہے ۔ اگرچہ اس رہائی کے لیے بھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیے گئے ہیں ، تاہم حماس کے اس بیان نے ان اسرائیلی خاندانوں کو خدشات میں اضافہ کر دیا ہے جن کے اہل خانہ حماس کے پاس یرغمال ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر سبھی امریکی ، سبھی یورپی یرغمال رہا ہو جائیں گے تو دیگر کی رہائی پر زور ڈالنے کے لیےحماس کو کیا ترغیب دی جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ حماس پر زور دیا جانا چاہئے کہ وہ تمام یرغمالوں کو رہا کرے قطع نظر اس کے کہ ان کی قومیت کیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سیے جانے والےکچھ انٹر ویوز میں اسرائیلی خاندانوں نے ا خوف ، غصے ، پریشانی اور دہشت بھرے جذبات سے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
خاندانوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بھر پور فوجی بمباری ان سوالوں کو جنم دیتی ہے کہ آیا حماس کو تباہ کرنا زیادہ اہم ہے یا یرغمال افراد کی رہائی ، یا ان دونوں پر ایک ساتھ عمل در آمد نہیں ہو سکتا۔
ان ہی خدشات کے پیش نظر بہت سے اسرائیلی خاندان دوسری حکومتوں ، مثلاً جرمنی، فرانس اور امریکہ سے مدد کے لیے رجوع کر رہے ہیں جو اس بات کا بظاہر اعتراف ہے کہ اسرائیل ان کے عزیزوں کی رہائی حاصل نہیں کر سکتا ۔
جیرالڈ کورنگولڈ نے ، جن کی بہو اور دو پوتے یرغمال ہیں ، بدھ کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ اسرائیلی حکومت کا ایک اہل کار ہر ہفتے تین بار خاندان سے رابطہ کرتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ اسرائیل یرغمالوں کے لیے جو کچھ کرسکتا ہے کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کے افراد کے پاس جرمن یا آسڑیا کی شہریت ہے اور انہیں جر من سفارت خانے پر بھروسہ ہے۔
اولیور میک ترنن ، جو یرغمالوں کے لیے ثالثی کا کئی برسوں کا تجربہ رکھتے ہیں ، کہتے ہیں کہ صرف اس وقت ایک ہی حکومت کی اہمیت ہے اور وہ ہے امریکہ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان 240 سے زیادہ یرغمالوں کی، جنہیں مختلف مقامات پر رکھا گیا ہے ،بمباری کے دوران بحفاظت منتقلی کا کوئی طریقہ کار گر نہیں ہو سکتا ۔
SEE ALSO: اسرائیلی کارروائی میں غزہ دو حصوں میں تقسیم، فوج کا شہر میں داخل ہونے کا امکانجمعے کے روز امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے ساتھ ایک میٹنگ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایسی کسی عارضی جنگ بندی کو خارج از امکان قرار دیا جس میں یرغمال افراد کی واپسی شامل نہ ہو۔
اٹلانٹا جارجیا میں یرغمالوں کی رہائی سے متعلق ایک تقریب میں ایک اسرائیلی یرغمال کی رشتے دار سیگل نے کہا کہ اسرائیلیوں کو بھی غزہ کے فلسطینیوں کے بارے میں فکر ہے۔
لیکن ان کا خیال ہے کہ بیشتر فلسطینی حماس کے استبداد کا نشانہ بن رہے ہیں۔" انہوں نے صرف ہمارے 240 ہی کو نہیں 23 لاکھ لوگوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔" سیگل نے کہا۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔