القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں رہائش گاہ کی نشان دہی میں امریکہ کے خفیہ اداروں کی مبینہ مدد کے الزام میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کے اہلِ خانہ کا دعویٰ ہے کہ ان کی صحت نازک ہے جب کہ جیل میں انہیں مبینہ طور پر علاج کی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے بھائی پنجاب کی ساہیوال جیل میں قید ہیں۔ ان کو متعدد بیماریوں کا سامنا ہے جن میں سرِ فہرست دانتوں کا عارضہ ہے جس کے باعث وہ کھانا ٹھیک سے نہیں کھا سکتے۔ اسی طرح ان کو جلد کی بیماری اور دیگر امراض بھی ہیں۔
جمیل آفریدی کے مطابق وہ اپنے بھائی سے رابطے میں ہیں جنہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے لگ بھگ ایک ماہ قبل ساہیوال جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے حکومت سے علاج کی سہولیات کی فراہمی کے لیے درخواست دی تھی البتہ اس درخواست پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
جمیل آفریدی نے دعویٰ کیا کہ جیل میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کی زندگی کو خطرات کا لاحق ہیں۔ البتہ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں۔
قوم پرست سیاسی کارکن زر علی خان آفریدی نے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کی بیماری کے بارے میں بتاتے ہوئے عالمی اداروں پر ان کی رہائی کے لیے اقدامات پر زور دیا ہے۔
ایبٹ آباد میں امریکہ کی فورسز نے دو مئی 2011 کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ایک خفیہ آپریشن میں ہلاک کیا تھا جس کے ایک ماہ بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جون 2011 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
بعد ازاں انہیں قبائلی علاقوں میں اس وقت رائج فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے تحت 23 مئی 2012 کو مجموعی طور پر 33 سال قید اور 23 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔
کمشنر پشاور ڈویژن نے بعد میں ایک درخواست کو منظور کرتے اس سزا اور جرمانے میں تخفیف کی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت نے ایف سی آر ٹربیونل میں اپیل کی تھی جب کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے وکیل کے ذریعے ان مقدمات کو ختم کرنے اور رہائی کی اپیل دائر کی تھی۔
قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اکتوبر 2018 میں دیگر کیسز کے ساتھ ساتھ شکیل آفریدی کا معاملہ بھی پشاور ہائی کورٹ منتقل ہو گیا تھا۔
پشاور کے جس انتظامی کمشنر صاحب زادہ محمد انیس نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے سزا میں تخفیف کی تھی وہ بعد میں 16 اکتوبر 2013 کو اسلام آباد میں آگ لگنے کے ایک پراسرار واقعے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ جب کہ عدالت میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی پیروی کرنے والے وکیل سمیع اللہ آفریدی کو مارچ 2015 کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بظاہر ایک کالعدم شدت پسند تنظیم ’لشکر اسلام‘ سے منسلک جنگجوؤں کا علاج کرنے کے الزام میں سابقہ ایف سی آر قانون کے تحت گرفتار کرکے سزا دی گئی تھی۔ البتہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان پر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کی نشاندہی کرنے میں امریکہ کے خفیہ ادارے سے تعاون کا الزام ہے۔ اس مقصد کے لیے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم کو استعمال کیا تھا۔
SEE ALSO: ڈاکٹر شکیل آفریدی کا مقدمہ پشاور ہائی کورٹ منتقلشکیل آفریدی کو مئی 2012 میں سزا سنائے جانے کے بعد پشاور جیل میں قید رکھا گیا تھا۔ البتہ انہیں اگست 2018 میں پنجاب کی ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ اب بھی قید ہیں۔
جمیل آفریدی کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ جیل میں نہایت برا سلوک کیا جا رہا ہے۔
پنجاب کے وزیرِ جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان سے جب وائس آف امریکہ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ان کے بھائی کی شکایات کے بارے میں رابطہ کیا تو انہوں نے فون بند کر دیا۔
خیبر پختونخوا حکومت کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جیل میں در پیش صحت کے مسائل پر مؤقف لینے کے لیے بارہا کاوشوں کے باوجود رابطہ نہیں ہو سکا۔ جب کہ انتظامی حکام اس مسئلے پر لب کشائی کے لیے تیار نہیں۔ ماضی میں خیبرپختونخوا کے وزیرِ اطلاعات کامران بنگش نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ شکیل آفریدی کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جا رہا ہے۔
جمیل آفریدی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو قبائلی علاقوں میں رائج قانون ایف سی آر کے تحت گرفتار کیا گیا اور سزا دی گئی۔ البتہ ان کو وفاقی حکومت کے حوالے کرکے پنجاب کی ساہیوال جیل میں رکھا گیا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔
ان کے مطابق ساہیوال جیل میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ ملاقات یا رابطہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ساہیوال سے پشاور جیل منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔