الیکشن کمیشن اور وزارت قانون کے درمیان نئے کاغذات نامزدگی کے مسودے پر اختلافات کا تاثر ابھر رہا ہے: سیاسی مبصرین
الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وزارت قانون کےدرمیان نئےکاغذات نامزدگی کے مسودے پر اختلافات کا تاثر ابھر رہا ہے۔ سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی رائے میں اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ الیکشن کمیشن نے مسودے پر صدر کے دستخط کو ’رسمی‘ جبکہ وزارت قانون نے ’ضروری‘ قرار دیا ہے۔
پیر کو الیکشن کمیشن کے اس بیان نے ہلچل مچا دی جس میں کہا کیا گیا کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کیلئے مجوزہ کاغذات نامزدگی کے مسودے کو منظوری کیلئے صدر کو بھجوایا گیا تھا اور وزارت قانون کو منظوری کیلئے گیارہ مارچ تک کا وقت دیا گیا تھا۔ لیکن، وزارت قانون نے نہ تو صدر سے منظوری لی اور نہ ہی اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا۔
ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کے نئے فارم پر صدر کے دستخطوں کو بھی ’رسمی‘ قرار دیا اور کہا کہ وزارت قانون کی طرف سے کاغذات نامزدگی میں بعض تبدیلیاں کی گئیں ہیں جو الیکشن کمیشن کو قبول نہیں۔ الیکشن کمیشن صدر سے کاغذات نامزدگی کے لیے مزید انتظار نہیں کرسکتا اور کاغذات نامزدگی کی چھپوائی شروع کروائی جارہی ہے۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیہ جاری ہونے کے بعد وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں واضح کیا کہ نئے کاغذات نامزدگی پر صدر کے دستخط ’رسمی‘ کارروائی نہیں بلکہ قانونی طور پر’ضروری‘ ہیں۔ وزارت قانون نے مسودے پر اپنے اعتراضات صدر کو بھجوا دیے ہیں اور جو فیصلہ صدر کریں گے وہ سب کو ماننا پڑے گا۔
اعتراضات سے متعلق وزیر قانون نے میڈیا کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے نئے کاغذات نامزدگی میں امیدواروں کیلئے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں جو اہلیت بیان کی گئی ہے اس کے مطابق بی اے کی ڈگری لازمی قرار دی گئی ہے۔ لیکن، اب تعلیم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ممالک سفر اور انکم ٹیکس سے متعلق فارم میں جو اضافہ کیا گیا ہے اس کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ پرانے فارم میں ہی موجود ہے۔
وزیر قانون کے بقول الیکشن کمیشن نے انتخابی اخراجات کے بارے میں علیحدہ اکاوٴنٹ کی بات کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں ایسا ہونا چاہیے لیکن ساتھ ہی نئے فارم میں امیدوار سے یہ پوچھنے کی بات بھی کی گئی ہے کہ اس نے اپنے حلقے میں کتنا کام کیا ہے۔ اصل میں یہ تو ووٹرز کو فیصلہ کرنا ہے، آرٹیکل 62 ، 63 اس کا تقاضہ نہیں کرتا۔
اس تمام تر صورتحال میں ایڈیشنل سیکریٹری افضل خان نے میڈیا کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو تمام ضروری اختیارات حاصل ہیں۔ صدر بیرون ملک ہیں۔ ان کی آمد کا انتظار کیا جائے گا۔ امید کرتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے مناسب جواب آئے گا اور الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے میں ہی سب کی عزت ہے۔
پیر کو الیکشن کمیشن کے اس بیان نے ہلچل مچا دی جس میں کہا کیا گیا کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کیلئے مجوزہ کاغذات نامزدگی کے مسودے کو منظوری کیلئے صدر کو بھجوایا گیا تھا اور وزارت قانون کو منظوری کیلئے گیارہ مارچ تک کا وقت دیا گیا تھا۔ لیکن، وزارت قانون نے نہ تو صدر سے منظوری لی اور نہ ہی اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا۔
ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کے نئے فارم پر صدر کے دستخطوں کو بھی ’رسمی‘ قرار دیا اور کہا کہ وزارت قانون کی طرف سے کاغذات نامزدگی میں بعض تبدیلیاں کی گئیں ہیں جو الیکشن کمیشن کو قبول نہیں۔ الیکشن کمیشن صدر سے کاغذات نامزدگی کے لیے مزید انتظار نہیں کرسکتا اور کاغذات نامزدگی کی چھپوائی شروع کروائی جارہی ہے۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیہ جاری ہونے کے بعد وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں واضح کیا کہ نئے کاغذات نامزدگی پر صدر کے دستخط ’رسمی‘ کارروائی نہیں بلکہ قانونی طور پر’ضروری‘ ہیں۔ وزارت قانون نے مسودے پر اپنے اعتراضات صدر کو بھجوا دیے ہیں اور جو فیصلہ صدر کریں گے وہ سب کو ماننا پڑے گا۔
اعتراضات سے متعلق وزیر قانون نے میڈیا کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے نئے کاغذات نامزدگی میں امیدواروں کیلئے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں جو اہلیت بیان کی گئی ہے اس کے مطابق بی اے کی ڈگری لازمی قرار دی گئی ہے۔ لیکن، اب تعلیم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ممالک سفر اور انکم ٹیکس سے متعلق فارم میں جو اضافہ کیا گیا ہے اس کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ پرانے فارم میں ہی موجود ہے۔
وزیر قانون کے بقول الیکشن کمیشن نے انتخابی اخراجات کے بارے میں علیحدہ اکاوٴنٹ کی بات کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں ایسا ہونا چاہیے لیکن ساتھ ہی نئے فارم میں امیدوار سے یہ پوچھنے کی بات بھی کی گئی ہے کہ اس نے اپنے حلقے میں کتنا کام کیا ہے۔ اصل میں یہ تو ووٹرز کو فیصلہ کرنا ہے، آرٹیکل 62 ، 63 اس کا تقاضہ نہیں کرتا۔
اس تمام تر صورتحال میں ایڈیشنل سیکریٹری افضل خان نے میڈیا کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو تمام ضروری اختیارات حاصل ہیں۔ صدر بیرون ملک ہیں۔ ان کی آمد کا انتظار کیا جائے گا۔ امید کرتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے مناسب جواب آئے گا اور الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے میں ہی سب کی عزت ہے۔