فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اہم اجلاس 13 اکتوبر سے فرانس کے شہر پیرس میں جاری ہے۔ اِس اجلاس میں دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کوششوں کے بارے میں بھی غور کیا جا رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک اگر پاکستان کی کوششوں سے متفق ہوئے تو پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہ ہوئے تو پاکستان کی آئندہ پوزیشن کے بارے میں بھی فیصلہ کیا جائے گا۔
ایف اے ٹی ایف کا یہ اجلاس 18 اکتوبر تک جاری رہے گا جس کی سربراہی چین کر رہا ہے۔ چین کے علاوہ دیگر 37 ملک اور دو عالمی تنظیمیں بھی اِس اجلاس کی رکن ہیں۔
ایف اے ٹی ایف پاکستان میں موجود کالعدم تنظیموں اور اُن کے مالی وسائل کو دیگر ملکوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ پاکستان کے اقدامات کو پرکھنے کے لیے 14 اور 15 اکتوبر کے دن رکھے گئے تھے۔
اِس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کی قیادت میں ایک وفد نے کی جس میں ایڈیشنل سیکریٹری برائے وزارتِ خزانہ، نیکٹا، ایف آئی اے، ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے نمائندے شامل ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کا اجلاس شروع ہونے سے صرف ایک روز قبل پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے کالعدم تنظیم جماعت الدعوة کے چار ارکان پروفیسر ظفر اقبال، یحیٰی عزیز، عبدالسلام اور محمد اشرف کو گرفتار کیا تھا۔
SEE ALSO: پاکستان میں لشکر طیبہ کے چار مبینہ رہنما گرفتار، امریکہ کا خیر مقدمسی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ چاروں ملزمان پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات ہیں جن کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلے گا۔
گرے لسٹ کیا ہے؟
دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کی نگرانی کرنے والے بین الاقوامی ادارے فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کے مطابق گرے لسٹ میں دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ (غیر قانونی طریقے سے رقوم کی ترسیل) کرنے والے ملکوں کو شامل کیا جاتا ہے۔
موجودہ گرے لسٹ میں پاکستان کے علاوہ یمن، بہاماس، تیونس، بوٹسوانا، ٹاباگو، کمبوڈیا، ایتھوپیا، گھانا اور سری لنکا کے نام بھی شامل ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف اور اُس کے ایک ذیلی ادارے ایشیا پیسیفک گروپ کو منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردوں کی مالی مدد روکنے کے لیے سخت اقدامات کی یقین دہانی کرائی تھی۔
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اکتوبر 2019 تک 40 نکات پر مشتمل ہدایت نامے پر عمل درآمد کرنے کو کہا تھا۔ بصورت دیگر ایف اے ٹی ایف اپنے اجلاس میں پاکستان کے بارے میں مزید کوئی فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اِس سے قبل بھی 2012 سے 2015 کے دوران ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہ چکا ہے۔ اب اگر پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں آجاتا ہے تو پاکستان کو بین الاقوامی امداد، بین الاقوامی سرمایہ کاری میں کمی اور دیگر پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
جماعت الدعوة کا مؤقف:
حافظ محمد سعید کے چھوٹے بھائی حافظ محمد مسعود بتاتے ہیں کہ اُن کے جتنے بھی ادارے پاکستان میں کام کر رہے ہیں وہ تمام رجسٹرڈ ہیں اور اُن سب کا آڈٹ بھی ہوتا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے بتایا ہے کہ پاکستان بھر میں ان کے اسکول، مدارس، ڈسپنسریاں، موبائل کلینک یا مستقل صحت کے جو بھی مراکز تھے، اِن تمام اداروں کو حکومت نے کام کرنے سے روک دیا ہے۔
اُن کے بقول، وہ قانون کی پابندی کرنے والے لوگ ہیں۔ اگر حکومت اںہیں اجازت نہیں دے گی تو وہ حکومت سے ٹکرا نہیں سکتے بلکہ ہمیشہ قانونی جنگ لڑتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ "ہم نے اِس حکومتی فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا ہوا ہے۔ اُمید ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا اور ہم عدالت کے فیصلے کے مطابق چلیں گے۔"
حافظ محمد مسعود کے مطابق ان کے بھائی حافظ سعید کی تمام تنظیمیں پاکستان میں ایک قاعدے اور ضوابط کے تحت کام کرتی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے قوانین تحت سب کام کیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت نے ان کے گرفتار ساتھیوں کو رہا نہ کیا تو بھی وہ کوئی احتجاج نہیں کریں گے۔
پاکستان کو تھوڑا ریلیف ملنے کا امکان
پاکستان میں دفاعی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل سکے گا یا نہیں۔
اُن کے بقول، پاکستان نے منی لانڈرنگ کی روک تھام، مختلف تنظیموں اور اُن کے گروہوں کو محدود کرنے کے علاوہ کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو تھوڑا ریلیف ملتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ اِس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک یا وائٹ لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ لیکن تھوڑا بہت ریلیف مل سکتا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے اہم مقصد ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا ہے۔
اُن کے بقول، اگر پاکستان گرے لسٹ میں بھی رہتا ہے تب بھی پاکستان کے لیے پریشانی ہے جب کہ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کسی طرح بلیک لسٹ ہو جائے تاکہ وہ دنیا کو بتا سکیں کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے۔
’ایف اے ٹی ایف پاکستان پر دباؤ برقرار رکھ سکتا ہے‘
پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف مستقبل میں بھی پاکستان پر دباؤ برقرار رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اِس بات کا امکان موجود ہے کہ پاکستان پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے گرے لسٹ میں پاکستان کا دورانیہ بڑھ جائے۔
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیموں کے بارے میں پاکستان کی پالیسیوں میں بہت فرق آ گیا ہے۔ حکومت کی پالیسی اب بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔
احمد ولید کے مطابق، پاکستان کا اصل مسئلہ کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت کا ہے۔ ایسی تنظیموں کو بین الاقوامی فنڈنگ بھی ہو رہی تھی اور مقامی سطح پر بھی اِن کے لیے چندہ اکٹھا کیا جا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان تںظیموں کی فنڈنگ روکنے کے لیے پاکستان کو سختی سے نگرانی کرنا ہو گی اور تاجروں اور کاروباری لوگوں پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔ ان کے بقول، کالعدم تنظمیوں پر جب بھی پابندی لگتی ہے تو وہ دوسرے ناموں سے کام کرنا شروع کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے عالمی ادارے اور دوسرے ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کالعدم تنظیموں کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
نرم الفاظ کا چناؤ اور دوست ممالک:
سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید کہتے ہیں کہ دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ اُنہوں نے پاکستان کو جتنا بھی وقت دینا تھا وہ دے دیا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ ممبئی حملوں کو کئی سال گزرنے کے باوجود پاکستان نے بڑے اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم اور دیگر وزرا کو اپنا بیانیہ بھی تبدیل کرنا چاہیے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ کشمیریوں کی جگہ ہوتے تو وہ بھی بندوق اُٹھا لیتے۔ احمد ولید کے بقول، اِس طرح کی زبان سفارتی سطح پر اچھی نہیں سمجھی جاتی۔
انہوں نے کہا کہ سفارتی سطح پر اور بالخصوص ایسے پلیٹ فارمز پر جہاں دنیا بھر کے رہنما آپ کو سن رہے ہوں، ایسے کلمات سے گریز کرنا چاہیے۔